فاروق اعظم جیساحکمران ، تیاری بھی تو کریں

312

آج پوری قوم آئندہ پانچ سال کے لیے اپنے حکمرانوں کا انتخاب کررہی ہے اور اس موقع پر پاکستان کے ایک اہم اور طاقت ور ادارے عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے قوم کو ایک اشارہ دے دیا ہے یا اس خواہش کا اظہار کیا ہے جو پوری قوم کے دلوں میں کسی نہ کسی طور موجود ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ اللہ ہمیں فاروق اعظمؓ جیسا حکمران نصیب کرے جو قوم کو مشکلات سے چھٹکارا دلائے۔ یہ پاکستانی قوم اور امت مسلمہ کے ہر ملک کے ہر شہری کے دل کی خواہش ہے۔ یہ نام اسلامی تاریخ کے سنہرے ترین حکمران کا نام ہے۔ ہمارے پیارے نبی ؐ نے حکمرانی کا جو طریقہ اپنی امت اور صحابہ کرامؓ کو سکھایا اور خود اس پر عمل کیا ، حضرت عمر فاروقؓ نے اس ہدایت کی روشنی میں دنیا کو بہترین طرز حکمرانی عطا کیا۔ چیف جسٹس نے خواہش کا اظہار تو کردیا لیکن کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ ملک کا کون سا ادارہ، کون سی قوت اور کون سے مقتدر حلقے اس ملک میں فاروق اعظم جیسا حکمران لانا چاہتے ہیں۔ سب سے پہلے تو چیف جسٹس کو قاضی بننا پڑے گا۔ لیکن اسی عدالت عظمیٰ سے یہ اعتراف آچکا ہے کہ ہم جج ہیں قاضی نہیں، گویا قاضی کوئی کم درجے کی چیز ہوتا ہے۔ فاروق اعظمؓ کے دور میں قاضی کسی سپہ سالار اور حکمران سے نہیں ڈرتا تھا، کسی خصوصی طاقت ور ادارے سے خوف نہیں کھاتا تھا۔ یہاں تک کہ خلیفہ وقت کے خلاف بھی فیصلہ دینے کی جرأت رکھتا تھا۔ چلیں قاضی کو چھوڑ کر آگے بڑھیں۔ طرز حکمرانی کے اعتبار سے فاروق اعظمؓ نے جو معیار چھوڑا ہے آج اس کی گرد کو بھی کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ اب تو ہمارے اسلام پسند بھی کینیڈا اور اٹلی کے وزیر اعظم کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہ سادگی کے اعلیٰ معیار پر ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں 70برس کے دوران کبھی دینی جماعتوں، دینی و مذہبی رجحان رکھنے والوں کو اقتدار تک نہیں پہنچنے نہیں دیا گیا بلکہ اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ ہر طرف سے ان ہی کے خلاف رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ جس خلائی مخلوق کا ذکر میاں نواز شریف نے کیا اس خلائی مخلوق نے انہیں اقتدار تک پہنچایا اس لیے کہ ان کی پارٹی کے مسلم کے نام کا جھانسا عوام کو دیا جاسکے۔ بہرحال اس ملک کے عوام تو اسلامی حکمرانی چاہتے ہیں۔ اسی خلائی مخلوق نے ذوالفقار علی بھٹو کو حکمران بنایا اور ان کواسلامی سوشلزم کا نعرہ دیا گیا۔ اسی خلائی مخلوق نے کبھی زرداری کبھی شوکت عزیز کبھی شجاعت اور کبھی جمالی کو اقتدار میں پہنچایا۔ اگر ضرورت پڑتی ہے تو یہ خلائی مخلوق خود بھی اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے اور آج یہی خلائی مخلوق انتخابی مہم، مستقبل کی نقشہ گری اور اسمبلی کی سیٹوں کی تقسیم تک میں مصروف ہے۔ ممکنہ وزرائے اعظم کی لائن لگوادی گئی ہے ، کئی کئی لوگوں کو لارے لپے دیے گئے ہیں لیکن جن لوگوں کو آگے لایا جارہاہے، جن پر سرمایہ کاری کی جارہی ہے وہ فاروق اعظمؓ کے پاؤں کی گرد بھی ہوسکتے ہیں ؟ پھر کیکر کے پودے سے گلاب کی فصل کیوں کر ممکن ہوگی۔ سب سے بڑھ کر چیف جسٹس جناب جسٹس ثاقب نثار اس عظیم خواہش کے بعد بتائیں کہ ان کے فیصلوں کی زد کس پر پڑی ہے اور فائدہ کون سے اسلام پسند کو مل رہا ہے۔ اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں کوئی فاروق اعظم جیسا حکمران آئے تو ان کو چاہیے تھا کہ الیکشن کمیشن کو پابند کردیتے کہ دفعہ 62,63 کو پوری طرح بروئے کار لائے۔ اس کے نتیجے میں چار پانچ سو امیدوار قومی اسمبلی اور چند ہزار امیدوار صوبائی اسمبلی نااہل ہو جاتے لیکن پھر جو لوگ آتے یا لائے جاتے وہ اگر فاروق اعظم جیسی سیرت کے حامل نہ ہوتے تو کم از کم اس راہ کہ راہی تو ہوتے۔ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ پاکستان کے لیے فاروق اعظمؓ جیسا حکمران چاہنا یا اس کی خواہش کا اظہار کرنا الگ بات ہے اور اس کی تیاری کرنا دوسری بات۔ ظاہرسی بات ہے انتخابات سے ایک روز قبل چیف جسٹس ، آرمی چیف یا کوئی مفتی اعظم بھی یہ اپیل کردے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس کے لیے تیاری کرنی ہوتی ہے اور بہت طویل منصوبہ بند تیاری۔ پاکستان میں تو ارکان اسمبلی کی آبیاری سیکولر لابی کرتی ہے۔ جس چیز کی پنیری لگائی جائے گی ویسا ہی پودا اور پھل نکلے گا۔ چیف صاحب کی یہ خواہش ہے تو فی الحال اتنا کریں کہ اسمبلی اور سینیٹ کی رکنیت کے خواہشمند افرد کے لیے سیرت صحابہؓ خصوصاً فاروق اعظمؓ کے نظام سلطنت کا مطالعہ لازمی قرار دیا جائے۔ اس کے بغیر کوئی فرد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ کا رکن نہ بن سکے۔ کیا چیف جسٹس ایسا کوئی حکم دے کر خود کو سیکولر لابی اور طاقت کے مراکز کے سامنے متنازع بنانے کے لیے تیار ہیں ؟؟ ظاہری بات ہے ایسا نہیں ہوگا۔ پھر بھی ایک بات چیف جسٹس،طاقت کے مراکز اور خلائی مخلوق کے گوش گزار کردیتے ہیں اور عوام کی یاد دہانی کے لیے دہرائے دیتے ہیں کہ فاروق اعظمؓ جیسی حکمرانی کرنے والے سیکولر پارٹیوں یا لسانی و علاقائی تنظیموں سے پیدا نہیں ہوتے۔ ہاں ان میں بھی ایسے لوگ ضرور ہوں گے جو ایمان کے پختہ اور عمل کے پکے ہوں لیکن کسی میڈیا ئی لہر کی وجہ سے بہہ گئے ہوں۔ مگر بحیثیت جماعت ان سے ایسا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ یہ نادر پھل دینی جماعتوں کے پاس سے ملے گا۔ خواہ وہ جماعت اسلامی ہو، جمعیت علمائے اسلام کا کوئی دھڑا ہو۔ جے یو پی کا کوئی گروپ یا اہلحدیث، شیعہ، بریلوی ، سنی تحریک، جماعت الدعوۃ یا آج کل کی معروف دعوت اسلامی وغیرہ ہیں اگر فاروق اعظمؓ جیسی حکمرانی چاہتے ہیں تو ان ہی جماعتوں سے ملے گی۔ دینی جماعتوں کے بارے میں برسہا برس پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے کہ یہ ایک امام کے پیچھے تو متفق نہیں ہوتے ایک نظام کیا لائیں گے لیکن اب تو پورا پاکستان گواہ ہے کہ 2002 میں بننے والے دینی جماعتوں کے اتحاد کا احیا ہوا ہے اور اس میں ہر مسلک کے لوگ موجود ہیں اتفاق رائے سے صدر اور سیکرٹری منتخب ہوا ہے اور اتفاق رائے ہی سے امیدوار بنائے گئے ہیں۔ لہٰذا اس اعتراض کو تو ایم ایم اے نے ختم کردیا ہے۔ ایم ایم اے کی صورت میں دینی جماعتوں کا اتحاد اس تاثر کو ختم کرچکا ہے۔ اس اتحاد میں شامل جماعتوں نے عقیدۂ ختم نبوت کے خلاف سازش کو ناکام بنایا اور اس سال جماعت اسلامی اور جے یو آئی ف کی کوششوں کے نتیجے میں انتخابی مہم ختم نبوت کے گرد گھوم رہی ہے۔ لوگ ختم نبوت کے حوالے سے کسی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہیں۔ جو لوگ کسی سیکولر قوت کو ایک موقع دینے کی بات کررہے ہیں جس کے ساتھ ہر سیکولر پارٹی کے آزمائے ہوئے، دھتکارے ہوئے اور بھاگے ہوئے لوگ ہیں ان کے لیے بھی عرض ہے کہ اس معاشرے میں مولوی نماز پڑھاتا ہے۔ کبھی الٹی نماز نہیں پڑھائی، ہمیشہ کتاب و سنت کے مطابق پڑھاتا ہے۔ وہ نکاح بھی سنت کے مطابق پڑھاتا ہے اور جنازے بھی۔ فتویٰ مانگو تو وہ بھی کتاب و سنت کے مطابق دیتا ہے۔ غلط دے تو اسے گرفت میں لیا جاسکتا ہے۔ ایک بار اسے اقتدار دے دو۔ اس اقتدار کو بھی وہ کتاب کے مطابق استعمال کرے گا۔ اس لیے فاروق اعظمؓ جیسا حکمران تلاش کرنا ہے تو کتاب والوں ہی میں تلاش کرنا ہوگا۔