پی کے66پشاور کا وہ صوبائی انتخابی حلقہ ہے جہاں پیپلز پارٹی، اے این پی، ایم ایم اے اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کو تقریباً برابر سمجھا جارہا ہے۔ ایم ایم اے نے یہاں سے جماعت اسلامی کے سابق صوبائی وزیر حافظ حشمت خان کو میدان میں کھڑا کیا ہے جو 2013ء کے انتخابات میں ایم ایم اے کی غیر موجودگی میں پی ٹی آئی کے امیدوار محمود خان سے چند سو ووٹوں کے فرق سے ہار گئے تھے لہٰذا اب جب انہیں جمعیت (ف) سمیت ایم ایم اے میں شامل دیگر تین جماعتوں کی حمایت حاصل ہے، ایسے میں ایم ایم اے کے کارکن اور قیادت ان کی کامیابی کے حوالے سے کافی پرامید ہیں۔ واضح رہے کہ پیپلزپارٹی نے یہاں سے سابق اسپیکر صوبائی اسمبلی کرامت اللہ خان چغرمٹی کو میدان میں اتارا ہے، جب کہ اے این اے نے یہاں سے لیاقت علی خان اور قومی وطن پارٹی نے اپنے سینئر رہنما ہاشم بابر کو میدان میں اتارا ہے۔ پی کے 67 کے لیے پی پی پی نے سابق اسپیکر کرامت اللہ چغرمٹی کے بھائی رضا اللہ خان کو نامزد کیا ہے، اے این پی نے ملک نصیب خان کو کھڑا کیا ہے جب کہ قومی وطن پارٹی کے میدوار محمد شفیع ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے فضل اللہ داؤدزئی جو حال ہی میں جماعت اسلامی سے راہیں جدا کر چکے ہیں وہ بھی دوڑ میں شامل ہیں تاہم یہاں اصل مقابلہ ایم ایم اے کے سابق صوبائی وزیر اطلاعات آصف اقبال داؤدزئی اور پی ٹی آئی کے ارباب وسیم کے درمیان ہے جو حال ہی میں پی ایم ایل این کو چھوڑنے کے بعد پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔
پی کے 68 پر پیپلزپارٹی کے ملک طہماش خان ایم ایم اے کے قاری سمیع اللہ جان اور پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے ارباب جہانداد خان اس انتخابی حلقے میں ٹھوس ووٹ بینک رکھتے ہیں۔ پی کے 69پر پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر جنگلات اشتیاق ارمڑ اور ایم ایم اے کے خالد وقار چمکنی کے درمیان دلچسپ مقابلے کی توقع ہے۔ یہاں سے پی پی کے محمد شریف اور اے این پی کے سابق ایم پی اے ثاقب اللہ خان چمکنی بھی مضبوط ووٹ بینک رکھتے ہیں۔ اس حلقے پر ارباب محمد عثمان خان فرزند ارباب ایوب جان مرحوم اور نواب زادہ شکیل آفریدی پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے حصول میں ناکامی کے بعد آزادانہ طور پر حصہ لے رہے ہیں جس کا خمیازہ پی ٹی آئی کے امیدوار کو بھگتنا پڑ سکتاہے۔ پی کے 70 پر اے این پی کے سابق ڈپٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی خوشدل خان اور پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر شاہ فرمان کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ دوسرے حلقوں کے برعکس پی کے 71پر مسلم لیگ (ن) کے صفت اللہ، ایم ایم اے کے سابق رکن صوبائی اسمبلی جاوید خان مومند ایڈوکیٹ اور پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر شاہ فرمان جو دو حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں کو مضبوط امیدوار ان سمجھا جارہا ہے۔ پی کے 70پر مجلس عمل کے سابق صوبائی وزیرکاشف اعظم چشتی، اے این پی کے امیدوار اشفاق احمد خلیل، پی ٹی آئی کے فہیم احمد اور پیپلز پارٹی کے منظور خلیل کا سامنا کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ کاشف اعظم نے گزشتہ انتخابات میں یہاں سے سات ہزار سے زاید ووٹ حاصل کیے تھے اور اگر ان کے ساتھ جمعیت (ف) کے ساڑھے پانچ ہزار ووٹ بھی شامل کر لیے جائیں تو ان کی پوزیشن کافی بہتر نظر آتی ہے۔
پی کے 73 کے لیے 15 امیدواروں میں سے سب سے اہم مگر متنازع امیدوار پی ٹی آئی کے تیمور سلیم خان جھگڑا اور ایم ایم اے کے سابق صوبائی وزیر مولانا امان اللہ حقانی ہیں۔ یہ پشاور کا وہ دلچسپ حلقہ ہے جہاں سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے لیے32 امیدواروں نے درخواستیں دی تھیں جہاں بعدازاں نوبت بنی گالہ میں مظاہروں تک پہنچ گئی تھی۔ پی کے 74پر ایم ایم اے نے اے این پی کے سابق ایم پی اے عاطف الرحمان خلیل اور پی ٹی آئی نے پیر فدا ایڈوکیٹ کو ٹکٹ دیا ہے جب کہ پیپلز پارٹی نے سابق وفاقی وزیر ارباب عالمگیر خان کے بیٹے ارباب زرک خان کو میدان میں اتارا ہے۔ پی کے 75 کے انتخابی حلقے پر پاکستان راہ حق پارٹی کے سربراہ اور سابق ایم پی اے ابراہیم قاسمی کو ایم ایم اے کے امیدوار ارباب فاروق جان کے مقابلے میں مضبوط سمجھا جارہا ہے جب کہ یہاں سے اے این پی کے سابق صوبائی وزیر سید عاقل شاہ، پیپلز پارٹی کے مفتاح الدین اور پی ٹی آئی کے نوجوان امیدوار واجد اللہ خان کے درمیان گھمسان کا رن پڑنے کا امکان ہے۔ سیاسی مبصرین کا یہ دعویٰ ہے کہ پی کے 76 پر اصل مقابلہ ایم ایم اے کے بحراللہ خان ایڈوکیٹ اور پی ٹی آئی کے نوآموز امیدوار آصف خان کے درمیان ہے جب کہ یہاں سے پیپلزپارٹی کے ضیاء اللہ آفریدی، اے این اے کے ہدایت اللہ خان اور مسلم لیگ ن کے محمد ندیم بھی اپنی کامیابی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
پشاور کے شہری علاقوں پر مشتمل پی کے 77پر پی پی پی کے سابق صوبائی صدر سید ظاہرعلی شاہ، پی ٹی آئی کے کامران بنگش اور اے این پی کے سابق ضلعی ناظم محمد عمر مہمند سمیت 15 امیدواروں کے درمیان مقابلا ہے۔ پی کے78پر اے این پی کے ہارون بلور کی ایک خود کش حملے میں المناک شہادت کے بعد انتخابات ملتوی ہو چکے ہیں جب کہ پشاور کے آخری صوبائی حلقے پی کے 79 پر پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے فضل الٰہی، اے این پی کے ڈاکٹر عبد الجبار مہمند اور ایم ایم اے کے جمعیت علماء پاکستان (نورانی) سے تعلق رکھنے والے نوشاد خان کے درمیان سنسنی خیز مقابلے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔