اب کی بار۔۔۔ دیانت دار

235

عورت کی ایک معاشرے میں حیثیت کبھی بھی تماشائی کی نہیں ہوتی ہے۔ وہ کسی بھی صورت میں معاشرے سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتی کیوں کہ معاشرے کی اکائی یعنی گھر اُس کی سلطنت ہوتی ہے۔ جس پر معاشرے کے ہر نفع نقصان کا اثر ہونا لازم ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک عورت کے لیے معاشرے کا فائدہ اس کا اپنا فائدہ اور معاشرے کا نقصان اس کا اپنا نقصان ہوتا ہے۔ عورت اپنی قوت صلاحیت اور حمایت خیر اور بھلائی کے لیے استعمال کرے گی تو یہ بات یقینی ہوگی کہ وہ شر کا راستہ روکے گی۔ کیوں کہ دونوں کام ایک ساتھ نہیں کیے جاسکتے۔ شریعت اس بات کی نہ صرف عورت کو اجازت دیتی ہے کہ وہ بھلائی کا خیر مقدم کرے اور برائی کے لیے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرے بلکہ عورت کے اس حق کو تسلیم کرتی ہے اور اس کو اپنی پسند اور ناپسند کے اظہار کی اجازت دیتی ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ خواتین ہی نہیں مرد بھی ووٹ ڈالنے کے لیے نکلنا اپنی ترجیحات میں آخری نکتہ کے طور پر رکھتے ہیں۔ یہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہزاروں کی پڑھی لکھی آبادی میں بیلٹ بکس سے نکلنے والے ووٹوں کی تعداد سیکڑوں سے اوپر نہیں جاتی۔ کبھی کبھی تو وہ ڈیڑھ دو سو ہی کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ کراچی جیسے شہر میں یہ حالت ہو تو دیہی آبادی کا کیا حال ہوگا۔ لیکن وہاں وڈیرے اور جاگیردار اپنا مقصد نکالنا خوب جانتے ہیں۔
پچھلے الیکشن کی بات ہے محلے میں ووٹ کے لیے یاد دہانی کرائی تو کوئی کہتا تھا کہ میں تو کھانا کھلا کر جاؤں گی، چھٹی کے باعث یہ سب کچھ اتنی دیر سے ہوتا ہے کہ پولنگ کا وقت خاتمے کے قریب آجاتا۔ کسی کا کہنا تھا کہ اُس نے کپڑے دھونے کی مشین لگا رکھی ہے۔ لہٰذا کام اور تھکن کے باعث اس کا نکلنا مشکل ہے۔ کوئی اور پہلے ہی کہہ کر فارغ ہوگیا کہ اُس کے ہاں مہمان آرہے ہیں لہٰذا وہ بھلا ووٹ ڈالنے کیسے جاسکتی ہے؟ پھر مہمان بھی سسرال کی طرف کے ہیں۔ جن کا باتیں بنانا لازم ہے۔ لہٰذا میرا ووٹ تو بھول ہی جائیں۔ پوچھا کہ مہمانوں کو ووٹ نہیں ڈالنا؟؟ سوال کا جواب ٹال دیا کہ ہم یہ ان سے کیسے پوچھیں؟؟ بھرے پڑے خاندان جن میں ووٹ دس پندرہ تک ہوتے ہیں وہ بھی اگر نکلتے ہیں تو دوچار ہی نکلتے ہیں۔ اور فرض کفایہ کے طور پر کچھ ادائیگی پر مطمئن رہتے ہیں۔ قصہ مختصر کہ ووٹ کی ادائیگی کوئی ضروری کام تصور نہیں کیا جاتا۔ سوچ یہ ہی کہ بھلا ہمارے ووٹ سے کیا فرق پڑنے والا ہے؟؟ وہی بادشاہ اور تالاب بھرنے والا معاملہ کہ بادشاہ حکم دیتا ہے کہ ہر شہری رات کو ایک ایک پانی کی بالٹی ڈالے تالاب بھر جائے گا لیکن تالاب صبح کو سوکھا ہوتا ہے کہ ہر شہری سوچتا ہے کہ میری ایک بالٹی سے کیا ہوگا۔ آج بھی خیر کا تالاب سوکھا رہتا ہے۔ کیوں کہ اس سوچ کے ساتھ ووٹر کی بڑی تعداد گھروں میں استراحت کرتی رہتی ہے۔ اور یہ اہم دن سو سو کر چھٹی کے دن کے طور پر مناتی ہے۔ پھر سارا سال مہنگائی، پانی، گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ، مہنگی تعلیم اور بیروزگاری کا رونا روتی ہے، لیکن اس دفعہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، ہر ایک کو اپنے کام پہلے سے نمٹا لینے چاہئیں، خواتین گھروں میں ایک دن پہلے ہانڈی کا انتظام کرلیں اور صبح صبح ووٹ دے کر فارغ ہوجائیں۔ صبح کے وقت یوں بھی معاملہ ہلکا ہوتا ہے موسم بھی بہتر ہوتا ہے۔ خواتین اپنے کپڑوں، زیور یہاں تک کہ گھر کے سامان کے لیے کتنی باریک بینی اور منصوبہ بندی کے ساتھ اپنی پسند کے مطابق خریداری کی کوششیں کرتی ہیں، اسی سوچ کے ساتھ انتخاب کے دن ووٹ ڈالنے کی بھی منصوبہ بندی کرنی چاہیے کیوں کہ یہ ایک دن کا مختصر سا کام زندگی کے پانچ سال پر اثر انداز ہوگا۔
الیکشن کمیشن نے ملک کی ساری سیاسی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ انتخابی عمل میں خصوصی طور پر خواتین کی بھرپور شرکت کی حوصلہ افزائی کریں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے لکھے گئے خط میں اپیل کی گئی ہے کہ مرد خواتین کو اس دن پولنگ کے لیے نکلنے پر زور دیں۔ اس وقت انتخابی فہرستوں میں کل ووٹرز کی تعداد 9 کروڑ 71 لاکھ ہے جن میں سے 4 کروڑ 24 لاکھ خواتین ووٹرز ہیں۔ الیکشن کے دن اگر خواتین گھروں سے نکل کر ووٹ ڈالنے کا سنجیدگی سے ارادہ کرلیں تو وہ یقیناًنتائج پر فیصلہ کن اثرات ڈال سکتی ہیں، پھر صرف اپنی حد تک نہیں بلکہ خواتین اپنے گھر والوں، ہم سائیوں، اور سہیلیوں کو بھی اُس دن کی اہمیت کے بارے میں بتائیں۔ شوہروں، بھائیوں، بیٹیوں سب ہی کو یاد دہانی کرائیں، بار بار کرائیں تا کہ وہ معاشرے کی صحیح رُخ پر صورت گری کے لیے ایمان دار اور دیانت دار امیدواروں کو ووٹ دینے نکلیں۔ اپنے ووٹ کی ایک پرچی کو معمولی نہ سمجھیں یہ امانت ہے اہم ذمے داری ہے، اس پرچی کے ذریعے خیر کی حمایت اور شر کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔ یہ پرچی آپ کے میزان عمل کو بھی بھاری کرسکتی ہے۔ یہ کاغذ کا پرزہ نہیں معاشرے کو درست کرنے کی چابی ہے۔ آپ نے یہ چابی ٹھیک جگہ لگائی تو منتخب ہونے والے امیدوار کے ہر عمل خیر میں آپ کا حصہ ہوگا جو یقیناًقیامت کے دن ربّ کائنات آپ کو بڑھا چڑھا کر عطا کریں گے۔ اگر معاملہ برعکس ہوا تو امیدوار کے عمل شر میں بھی ووٹر کا حصہ ہوگا جو قیامت کے دن اس کو وصول کرنا ہوگا۔ اور دیکھیے کہ یہاں ناکامی بھی ناکامی نہیں کامیابی ہے حق کے لیے ڈالا گیا ووٹ اور اس کے لیے کی گئی آپ کی محنت کو فرشتے لکھ لیں گے ثبت کرلیں گے۔ لہٰذا انتخاب کا دن ہرگز گھر پر نہ گزاریے، ووٹ ڈالیے اور ڈلوایے کہ ہم کو پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی پاکستان اور خوشحال پاکستان بنانا ہے اور میزان عمل کو بھی بھاری کرنا ہے، لہٰذا اعلان عام کردیجیے ’’اب کی بار۔۔۔ دیانت دار‘‘۔