فیصلے کا دن

246

متین فکری
۔25جولائی آج فیصلے کا دن ہے۔ یہ وہ دن ہے جو ہر پانچ سال کے بعد پاکستان کے عوام کے حصے میں آتا ہے۔ اس دن وہ محکوم کے بجائے ملک کے حکمران بن جاتے ہیں اور جو لوگ ستر سال سے ان پر حکمرانی کرتے چلے آرہے ہیں، جھولی پھیلا کر ان کے آگے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ووٹ کی بھیک مانگنے لگتے ہیں۔ عوام کی یہ ایک دن کی حکمرانی بھی خوب ہے اس دن ان کی خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے، انہیں بریانی کھلائی جاتی ہے، ٹھنڈی بوتلیں پلائی جاتی ہیں، انہیں گاڑیوں میں بٹھا کر پولنگ اسٹیشن لے جایا جاتا ہے، پھر جب یہ سادہ دل عوام ان کی مرضی کے مطابق ووٹ کی پرچی ڈال دیتے ہیں تو پھر انہیں سڑک پر رُلنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے اور کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ لیکن اب کی دفعہ عجیب اتفاق ہوا۔ آج کے دن سے پہلے جب عوام پر حکمرانی کرنے والے لوگ ووٹ مانگنے کے لیے اپنے اپنے حلقوں میں گئے تو بے زبان عوام کے منہ میں بھی زبان آگئی، وہ ان سے پوچھنے لگے کہ آپ پانچ سال سے کہاں تھے، آپ نے پانچ سال پہلے ہم سے جو ووٹ لیے تھے اور ہمارے نمائندے بن کر پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں گئے تھے وہاں ہمارے لیے کیا کیا؟ ہماری کون سی مشکل حل کی؟ ہمارے لیے کون سی آسانی پیدا کی؟ ہمارے کون سے مسائل حل کیے؟۔ لوگوں کی زبانیں کھل گئی تھیں اور وہ اپنے خود ساختہ نمائندوں سے بے دھڑک سوالات کررہے تھے۔ ان سوالوں کا ووٹ مانگنے والوں کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ ایم کیو ایم کے لیڈروں کے ساتھ تو اور بُری ہوئی، انہیں دیکھتے ہی عورتیں بھی گھروں سے نکل آئیں اور ان پر تبرّا بھیجنے لگیں، ایک بزرگ نے ان سے کہا ’’تم وہی لوگ تو ہو جو پستول کی نوک پر ہم سے قربانی کی کھالیں چھین کر لے جایا کرتے تھے، آج ووٹ مانگنے آگئے ہو، شرم کرو‘‘۔ ایک ستم ظریف کا کہنا تھا ’’بھائی میاں آپ کو ووٹ مانگنے کا خیال کیسے آگیا آپ تو ہمارا ووٹ ہمارے جانے سے پہلے ہی ڈلوا دیا کرتے تھے، اب کی دفعہ ہم اپنی مرضی سے ووٹ ڈالیں گے‘‘۔ ایک پارٹی ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگارہی ہے اور ہمارے بعض دانشوروں نے اسے زبردست ’’بیانیہ‘‘ قرار دیا ہے، ایک دانشور نے لکھا ہے کہ میاں نواز شریف جیل چلے گئے لیکن ان کا بیانیہ تو آزاد ہے اور رنگ دکھا رہا ہے، ہمارے دوستوں کا کہنا ہے کہ یہ بیانیہ واقعی رنگ دکھا رہا ہے اور عوام اس پارٹی کے امیدواروں سے پوچھ رہے ہیں کہ آپ لوگ تیس پینتیس سال اقتدار میں رہے ہمارے ووٹ کو کتنی عزت دی، ہمارے مینڈیٹ کا کتنا احترام کیا۔ ایک ستم ظریف نے لکھا ہے کہ میاں نواز شریف نے تو ہمارا ووٹ مودی کی جھولی میں ڈال دیا تھا اور اس سے یاری گانٹھ لی تھی، اس سے زیادہ ہمارے ووٹ اور ہمارے مینڈیٹ کی توہین اور کیا ہوسکتی تھی؟۔
انتخابات میں ملک کی تمام سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں حصہ لے رہی ہیں لیکن میڈیا نے صرف تین سیاسی جماعتوں کو کوریج دی ہے۔ ایک تحریک انصاف، دوسری مسلم لیگ (ن) اور تیسری پیپلز پارٹی۔ سیاسی تجزیے، تبصرے، ٹاک شوز، قیاس آرائیاں اور اندازے بھی ان تین جماعتوں کے گرد گردش کررہے ہیں۔ حالاں کہ مذہبی جماعتوں کا ایک اہم اتحاد متحدہ مجلس عمل بھی میدان میں ہے اس نے سب سے زیادہ اہل، دیانتدار، تعلیم یافتہ اور صادق و امین امیدوار میدان میں اُتارے ہیں لیکن میڈیا میں اس مذہبی اتحاد کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ متحدہ مجلس عمل نے چاروں صوبوں میں بھرپور انتخابی جلسے کیے ہیں لیکن میڈیا میں ان جلسوں کو وہ کوریج نہیں دی گئی جو دوسروں کو دی جاتی رہی ہے۔ ایم ایم اے کا زیادہ تر انحصار مذہبی ووٹوں پر ہے، پاکستان بنیادی طور پر ایک مذہبی ملک ہے، اسلام کو اس کے آئین میں بنیادی اہمیت حاصل ہے، اسی لیے اسے اسلامی آئین قرار دیا جاتا ہے۔ متحدہ مجلس عمل ملک میں نفاذ اسلام کے دعوے کے ساتھ انتخابی میدان میں اُتری ہے اس لیے مذہبی لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ رہی ہے لیکن اب کی دفعہ ہوا یہ ہے کہ مذہبی ووٹ تقسیم ہوگیا ہے اور دو نئے مذہبی گروپ انتخابی میدان میں آگئے ہیں ایک تحریک لبیک (یارسول اللہ) اور دوسرا تحریک اللہ اکبر۔ اس گروپ کی پشت پر ملی مسلم لیگ ہے جس پر جماعۃ الدعوۃ والے حافظ محمد سعید کا ٹھپا ہے، اس لیے الیکشن کمیشن نے اسے رجسٹر نہیں کیا ہے اور اس کے امیدوار تحریک اللہ اکبر کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ رہے ہیں جسے الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن حاصل ہے۔ تحریک لبیک علامہ خادم رضوی کی جماعت ہے جنہوں نے ختم نبوت کے مسئلے پر راولپنڈی کے فیض آبا کراسنگ چوک پر اپنے دو ہزار کارکنوں کے ساتھ دھرنا دے کر وفاقی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا۔ اس تناظر میں کہا جارہا ہے کہ یہ دونوں مذہبی گروپ کہیں کہیں متحدہ مجلس عمل کے ووٹ پر بھی اثر انداز ہوں گے لیکن
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
متحدہ مجلس عمل کے جاندار امیدوار اپنا ٹارگٹ خود پورا کرلیں گے اور ان کی طرف سے حیران کن نتائج کی توقع کی جارہی ہے۔ پورے ملک کا سیاسی منظرنامہ یہ ہے کہ متحدہ مجلس عمل سمیت تمام سیاسی جماعتیں یہ شکایت کررہی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ صرف ایک جماعت اور اس کے لیڈر کی سرپرستی کررہی ہیں۔ شہباز شریف نے بڑا خوبصورت جملہ کہا ہے ’’سب کی چھٹی، لاڈلے کو کھلی چھوٹ‘‘۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود لاڈلے یعنی عمران خان کے حق میں حالات اچھے نہیں ہیں ان کے آخری انتخابی جلسے نہایت مایوس کن رہے ہیں۔ آج سے ایک ماہ پہلے جو سیاسی تجزیہ کار یہ کہہ رہے تھے کہ عمران خان قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرلیں گے وہ اب یہ کہنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ عمران خان ستر سے زیادہ سیٹیں نہیں لے پائیں گے۔ خود کپتان بھی مایوسی کا شکار ہے۔ اس نے بھی معلق پارلیمنٹ وجود میں آنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ایسی صورت میں اس کا کہنا ہے کہ وہ کرپٹ پارٹیوں کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دے گا۔ گویا اس نے ذہنی طور پر خود کو اپوزیشن میں بیٹھنے کے لیے تیار کرلیا ہے اور اس کا وزارت عظمیٰ کا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ بعض ستم ظریف تو اب بھی اس بات پر مُصر ہیں کہ اس کے ہاتھ میں وزارت عظمیٰ کی لکیر ہی نہیں ہے۔ کہا جارہا ہے کہ پنجاب میں اب بھی (ن) لیگ کو برتری حاصل ہے اور تحریک انصاف بالادست قوتوں کی تمام تر سرپرستی کے باوجود یہ قلعہ سر کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔
بہر کیف آج فیصلے کا دن ہے۔ فیصلے کا اختیار عوام کے پاس ہے، اگر ان کے ووٹ کو ہائی جیک نہ کیا گیا تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ امیدواروں کی منڈی میں صاف ستھرے بے داغ کردار کے حامل امین و صادق نمائندوں کا انتخاب کرکے حالات کا رُخ بدل سکتے ہیں۔ یہ ان کے سیاسی شعور کا امتحان بھی ہے اور حب الوطنی کا تقاضا بھی۔ عوام آج جو کچھ بوئیں گے پانچ سال تک انہیں اس کی فصل کاٹنا پڑے گی۔
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم!