جمہوریت کا جشن کیسے منائیں؟؟

334

پاکستانی قوم نے 2018ء کے انتخابات میں رائے دے دی۔ ووٹوں کی گنتی رات گئے تک جاری تھی۔ برتری کامیابی اور ہار جیت کے اعلانات شروع ہوگئے۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے ایک روز قبل ہی کہاتھا کہ اس مرتبہ ٹرن آؤٹ زیادہ ہوگا۔ قوم جمہوریت کا جشن منائے گی۔ پاک فوج کے جوانوں کی موجودگی پر اطمینان کا اظہار بھی کیا گیا اور تشویش بھی ظاہر کی گئی۔ ابھی تو ٹھیک طرح نتائج سامنے نہیں آئے رات گزر جائے اور صبح کو جب پارٹی پوزیشن واضح ہوگی تو دھاندلی اور بد عنوانی کے الزامات بھی لگیں گے بلکہ رات ہی کو یہ حالات پیدا ہوگئے۔ دعوؤں کے برعکس بد انتظامی اور بے ہودگی کی انتہا ہوگئی اور اس سب کا بڑا ذمے دار الیکشن کمیشن ہی ہے۔ پولنگ اسٹیشنوں کا انتخاب ان میں پولنگ بوتھ قائم کرنے کا فیصلہ ان کی گنجائش ووٹرز کی سہولت کا خیال یہ سارے کام الیکشن کمیشن کے تھے۔ لیکن دیکھا گیا کہ سرکاری اسکولوں میں تو حالات خراب ہوتے ہیں لیکن کم از کم ان کی عمارتیں کشادہ اور وسیع ہوتی ہیں ہوا کا گزر ہوتا ہے ان اسکولوں میں بجلی، صفائی اور میز کرسی کا مسئلہ تھا لیکن جن نجی اسکولوں اور کالجوں میں سینٹر پڑے وہ تو بد انتظامی کا شاہکار تھے۔ چھوٹی سی عمارت میں دس فٹ چوڑے اور 16 فٹ لمبے کمرے میں دو پولنگ بوتھ بنادیے گئے ایک بوتھ میں ایک پولنگ افسر اور اس کے دو معاونین ہوتے ہیں۔ کم از کم پانچ چھ سیاسی جماعتوں کے ایجنٹ ہوتے ہیں، صوبائی اسمبلی کا امیدوار بھی اپنا نمائندہ رکھ سکتا ہے پھر اس کمرے میں ووٹر بے چارہ کہاں کھڑا ہوکر جمہوریت کا جشن مناتا۔ اس پر طرہ یہ کہ دونوں بوتھوں کے لیے مجموعی طور پر 6 کے بجائے صرف تین افراد عملے میں شامل تھے۔ نتیجہ جمہوریت کا جشن منانے والا ووٹر بھگت رہا تھا۔اور دو فوجی بھی درمیان میں گشت کررہے تھے۔ دستگیر میں تو انتہا ہوگئی پولنگ عملے کے بجائے متحدہ کے کارکن گیٹ پر کھڑے ہوئے ملے اور خواتین کو روکنا شروع کیا کہ پہلے بتاؤ ووٹ کس کو دوگی پھر اندر جانے دیں گے۔ وہاں موجود پولیس اور فوج کو پتا ہی نہیں چلاکہ پولنگ اسٹیشن کے دروازے پر کیا ہورہاہے۔ اسی طرح چھوٹے چھوٹے نجی اسکولوں اور کالجوں میں پولنگ اسٹیشن بنادیے نتیجہ جشن منانے والے ووٹر کو بھگتنا پڑا۔ 75 سالہ بزرگ اور بیمار مردوں اور خواتین کو دوسری منزل پر جانا پڑا۔پر امن انتخابات کا تاثر دیا جارہاہے زور دے کر کہا جارہاہے کہ انتخابات بہت پر امن ہوئے لیکن دھماکوں، تصادم اور فائرنگ میں پینتیس لوگ جان سے گئے۔ درجنوں زخمی ہوئے۔ ایک ووٹر کو تو پولیس والوں نے طیش میں آکر خوب مارا گھسیٹ کر گاڑی میں پھینکا اس کی مزاحمت پر زمین پر گراکر مارا۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے کہاکہ قوم جمہوریت کا جشن منائے گی۔ جو کچھ ہوا اس کا زیادہ بوجھ سیاسی جماعتوں پر لاد دیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے جو انتخابی فہرستیں ادھر کی ادھر کی تھیں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی ذمے داری بن گئی کہ وہ لوگوں کو درست پولنگ اسٹیشن اور بوتھ بتائیں۔ اسی طرح اچانک تبدیل کیے گئے پولنگ اسٹیشن کی معلومات بھی ووٹر کو نہیں دی گئیں بلکہ پولنگ اسٹیشنوں کے دروازے پر دو فٹ کے کاغذ پر ہاتھ سے لکھ دیا گیا کہ آپ کا پولنگ اسٹیشن قریب واقع دوسرے اسکول منتقل ہوگیا ہے۔ اس کی رہنمائی کے لیے جب عملے سے درخواست کی گئی تو انہوں نے بھی ووٹروں کو سیاسی جماعتوں کے کیمپوں کی طرف ہانک دیا، پولنگ اسٹیشنوں کے اندر یہ حال تھا کہ پولنگ کا عملہ غیر تبیت یافتہ اور بیشتر مقامات پر عملہ کم بھی تھا۔ یہاں تک کہ پولنگ کا عملہ اس قدر سستی سے کام کررہاتھا کہ چھوٹے پولنگ اسٹیشن کے باہر طویل قطاریں لگ گئیں اور بڑے پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اس کے نتیجے میں کئی مقامات پر پولنگ کی شرح کم رہی اس کی وجوہات میں سے ایک سخت سیکورٹی تھی جس ووٹر کو جشن منانے کی نوید ملی تھی اسے نہایت سخت تلاشی کے عمل سے گزرنا پڑا۔ اپنا موبائل کسی کے پاس رکھواکر جانے والے کئی لوگ موبائل سے محروم بھی ہوگئے یا پھر انہیں واپس جاکر موبائل گاڑی میں رکھنا پڑا۔ اس سارے سیکورٹی کے عمل کے نتیجے میں ووٹرز کی قطاریں لمبی ہوتی چلی گئیں۔ این اے 249 میں تو چھوٹے چھوٹے اسکولوں میں پولنگ اسٹیشن ہونے کی وجہ سے چھ بجے دو چار لوگ ہی پولنگ اسٹیشن میں تھے ہزاروں لوگوں کو محض سست روی کی وجہ سے ووٹ ڈالے بغیر واپس جانا پڑا۔ بہر حال گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ پر امن انتخابات ضرور ہوئے۔ پولنگ کے دوران گڑ بڑ ضرور ہوئی لیکن بہت کم۔ البتہ پولنگ کے بعد گنتی کے عمل کے بارے میں شکایات ملنا شروع ہوگئیں کہ پولنگ ایجنٹوں کو بیلٹ پیپر دکھائے بغیر گنتی کی جارہی تھی اس کی شکایت ایم ایم اے، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے بھی کی۔ لیکن جب تک یہ شکایت الیکشن کمیشن تک پہنچی اس وقت تک بہت سارے نتائج متاثر ہوچکے تھے اس حوالے سے کوئی کسی کو الزام نہیں دے سکتا یہ شکایت آئی کہ گنتی کے مواقع پر موجود فوجیوں نے بیلٹ پیپر دکھانے سے روکا اور پولنگ کے عملے سے کہاکہ آپ براہ راست نام پکاریں۔ اس کی وضاحت اگرچہ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کی ہے کہ تمام پولنگ ایجنٹوں کو فارم 45 دیے گئے ہیں لیکن یہ شکایت تو پولنگ ایجنٹوں ہی نے کی ہے کہ انہیں بیلٹ پیپر نہیں دکھایا جارہا۔ اب خیر سے پولنگ ہوچکی اور مختلف پارٹیوں کی ہار جیت اور برتری کی خبریں آرہی ہیں اگلا مرحلہ حکومت سازی کا ہے جس کے لیے حتمی نتائج سے قبل ہی جوڑ توڑ شروع ہوگیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ زیادہ سیٹوں والا ہی وزیراعظم بنتا ہے یا کم سیٹوں والوں کو جوڑ توڑ کر مخلوط حکومت بنادی جاتی ہے لیکن انتخابی عمل کو آزاد، خود مختار اور شفاف کہنے سے قبل کئی مرتبہ سوچنا پڑے گا۔ پوسٹل بیلٹ پیپرز بھی چوری ہونے کی اطلاع ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بہر حال ان الزامات کو یکسر مسترد کردیا ہے اور الٹا الزام لگایا کہ جو امیدوار ہار رہا ہے اس کے ایجنٹ فارم 45 پر مصدقہ نتائج لیے بغیر جارہے ہیں۔ لیجیے سیاسی جماعتیں احتجاج کررہی ہیں اور سیکرٹری صاحب فرمارہے ہیں کہ سب شکایتیں جھوٹی ہیں۔ جب شکایتوں کو سننے سے قبل ہی جھوٹا قرار دے دیا جائے تو انصاف اور شفاف الیکشن کیونکر ہوں گے۔ یہ صورتحال پورے انتخابی عمل کو مشتبہ بنارہی ہے اور اب ایسا لگ رہا ہے کہ مختلف پارٹیوں سے لوگوں کا نکلنا۔ آزاد لڑنا، دوسرا گروپ بنانا ایک خاص پارٹی میں جمع ہونا، نئے نئے گروپوں کا انتخاب لڑنا، میڈیا، خصوصاً ٹی وی کے ذریعے بھی ایک ہی پارٹی کے لیے مہم چلانا اور انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کا الزام یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں اب یہ صورتحال ہے کہ 8 سیاسی جماعتوں نے ان نتائج پر شبہات کا اظہار کیا ہے اور احتجاج بھی شروع کردیا ہے۔ایک بار پھر وہی کہانی میاں نواز شریف نے 2013ء میں 11 بجے جشن منایا تھا اور پی ٹی آئی نے ساڑھے 11 بجے جشن منانا شروع کردیا۔ ٹی وی چینلز نے یہی تاثر دیا کہ ملک بھر میں صرف پی ٹی آئی اور مسلم لیگ یا کہیں کہیں پی پی پی الیکشن لڑ رہی ہے۔ باقی سب کسی گنتی میں نہیں تھے۔ اس معاملے میں کسی ٹی وی چینل کی تخصیص نہیں سب ایک ہی ایجنڈے پر عمل پیرا تھے۔ اب جو صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ ملک کے لیے تباہ کن ہوسکتی ہے۔ کیا ایک پارٹی کی خاطر قومی یکجہتی کو تباہ کردیا جائے گا۔