معزز جج صاحب! 

245

آزاد پاکستان میں عدالتیں آزاد ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ ایک جج نے ملک کے سب سے بڑے اور اہم ادارے کے اہم ترین ذیلی یونٹ کے حوالے سے ’’بہت کچھ‘‘ صاف صاف بتادیا اور اپنے تئیں وہ ملک کے واحد صاف گو شخصیت قرار پائے۔ کاش کے یہ صاف گوئی کرنے کے بجائے اس پر وہ تحریری اور خفیہ اطلاعات متعلقہ حکام کو فراہم کردیتے۔ راولپنڈی بار کونسل میں شوکت صدیقی کی بے باکانہ تقاریر پر کراچی کے ایک ریٹائرڈ جج صاحب نے ٹیوٹر پیغام کے ذریعے ان کی حوصلہ افزائی کچھ ان الفاظ میں کی ہے ’’جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب آپ پہاڑ سے ٹکرا گئے ہیں اس پہاڑ نے بڑے بڑوں کو ریزہ ریزہ کیا ہے میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے آپ نے سچ بول کر پاکستانی قوم پر جو احسان کیا ہے اس کا بدلہ اتارنا تو درکنار بدقسمتی سے بہت سے لوگ آپ کو عبرت بنانے کے دلائل دیں گے‘‘۔
یاد رہے کہ ہفتے کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے راولپنڈی بار سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ عدلیہ بندوق والوں کے کنٹرول میں آگئی ہے، خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے ہمارے چیف جسٹس تک رسائی حاصل کرکے کہا کہ ہم نواز شریف اور ان کی بیٹی کو انتخابات تک باہر نہیں آنے دیں گے۔ آج کے اس دور میں انٹیلی جنس ایجنسی پوری طرح عدالتی معاملات کو مینی پولیٹ کرنے میں ملوث ہے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ خفیہ ادارے کی مرضی کے فیصلے دینے پر انہیں وقت سے پہلے چیف جسٹس بنوانے اور ان کے خلاف دائر ریفرنس ختم کرانے کی پیشکش کی گئی تھی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ انہوں نے خفیہ ادارے کے اہلکاروں سے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ اپنے ضمیر کو گروی رکھنے پر موت کو ترجیح دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کے انکار کے بعد خفیہ اہلکاروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور کاسی سے رابطہ کر کے انہیں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کرنے والے بینچ میں جسٹس شوکت صدیقی کو شامل نہ کرنے کے لیے کہا اور یہ بات اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے تسلیم کر لی تھی۔ جسٹس صدیقی کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے خفیہ اداروں کے نمائندوں سے کہا کہ جس بینچ سے آپ ایزی ہیں ہم وہ بینچ بنا دیتے ہیں۔ جسٹس محترم شوکت صدیقی نے بحیثیت جج جو کچھ کہا اور جو الزامات عائد کیے ان پر پاکستان آرمی نے چیف جسٹس پاکستان سے تحقیقات کرانے کی درخواست کردی۔ اس ضمن میں پاک فوج کے ترجمان ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے چیف جسٹس سے درخواست کی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت صدیقی کی جانب سے ریاستی اداروں پر لگائے گئے سنگین الزامات کی تحقیقات اور کارروائی کی جائے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ معزز جج کے الزامات کی انکوائری کرائے۔ ٹوئٹر پر جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک معزز جج کی جانب سے ملک کے ریاستی اداروں، انٹیلی جنس ایجنسی بشمول معزز عدلیہ کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات لگائے گئے، عدالت عظمیٰ ملکی اداروں کے وقار اور تکریم کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرے، عدالت عظمیٰ سے درخواست ہے کہ وہ ان الزامات کی تحقیقات کرائے اور کارروائی کرے۔
دوسری جانب چیف جسٹس، جسٹس ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر کا نوٹس لیتے ہوئے ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کے ایک جج کا بیان پڑھا جس پر بہت افسوس ہوا، عدلیہ کے سربراہ کے طور پر یقین دلاتا ہوں کہ ہم پر کسی کا دباؤ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پوری طرح آزاد اور خود مختار کام کررہے ہیں، ہمارے ججوں پر کہیں کوئی دباؤ نہیں، اس طرح کے بیانات ناقابلِ فہم اور ناقابلِ قبول ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس کے مبینہ قابل اعتراض بیان پر پاک فوج کے ترجمان کا ردعمل اور خود عدالت عظمٰی کے چیف جسٹس کی جانب سے نوٹس لیے جانے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام آباد کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا بیان متنازع نہیں تھا تو اب ہوچکا ہے۔ عام انتخابات سے صرف چار دن قبل جج کی زبانی یہ باتیں اس لیے بھی اہم ہے کہ 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات فوج کی نگرانی و موجودگی میں ہورہے ہیں۔ اسی فوج کی نگرانی میں جس کے ایک ادارے پر ایک جج نے انتہائی قابل اعتراض باتیں کہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ معزز جج صاحب کی برداشت کی انتہا ہوچکی تھی؟ لیکن کیا ملکی معاملات کو اس طرح سرعام ’’ڈسکس‘‘ کرنے کی اجازت ایک جج ہو حاصل ہوتی ہے؟ بس پوری قوم چیف جسٹس پاکستان سے اس سوال کا جواب جاننا چاہتی ہے۔جسٹس شوکت عزیز نے اپنی تقریر میں جو کچھ کہا ان میں سب سے اہم جملے مجرم نواز شریف اور ان کی بیٹی کے حوالے سے تھے۔ اس لیے یہ سوال بھی پیدا ہورہا ہے کہ کیا ایک جج کو اس طرح کی متنازع باتوں کا پرچار کرنا چاہیے؟۔