مقدمات ،سزائیں اور کرپشن کا خاتمہ

288

تمام تر خدشات اور اندیشوں کے باوجود الیکشن 2018 بالآخر منعقد ہو گئے۔ انتخابی مہم کی خاص بات وہ پولرائزیشن اور محاذ آرائی تھی جس نے زبان و بیان کے وہ رنگ اختیار کیے کہ اللہ کی پناہ۔ الیکشن کے حوالے سے محاذ آرائی اور پولرائزیشن ہمارے لیے نئی بات نہیں۔1970 کے الیکشن اسلام اور کفر کی جنگ تھے۔1977 کی الیکشن مہم دھاندلیوں سے گزرتی ہوئی نظام مصطفی تک آپہنچی جس سے فائدہ اُٹھا کرضیا الحق ایوان اقتدار تک جا پہنچے اور ذوالفقار علی بھٹو ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں پھانسی گھاٹ۔ اس کے بعد جتنے الیکشن لڑے گئے ان کا بنیادی موضوع اسلام کے بجائے کرپشن تھا۔ 1990میں بے نظیر کی حکومت کے خاتمے کی وجہ کرپشن کو قرار دیا گیا۔ بے نظیر کے بعد نوازشریف بر سر اقتدار آئے تو 1993میں صدر غلام اسحاق خان نے انہیں بھی فارغ کرنے کے لیے کرپشن کے الزام کا سہارا لیا۔ 1996میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے منہ بولے بھائی صدر فاروق لغاری نے ان کی حکومت کے ختم کرنے کا یہ جواز پیش کیا کہ ایوان وزیراعظم کرپشن کا گڑھ بن چکاتھا۔2012 میں یوسف رضاگیلانی کی حکومت بھی کرپشن کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں ختم کردی گئی اور اب نواز شریف کرپشن کی وجہ سے جیل بھگت رہے ہیں۔ بیس برس ہونے کو آرہے ہیں ہمارے یہاں حکومتیں کرپشن کے الزامات کی زد پر آتی ہیں اور پھر ختم کردی جاتی ہیں۔ ہر مرتبہ الیکشن اس امید پر کرائے جاتے ہیں کہ اس الیکشن کے نتیجے میں ہمیں ایک صاف شفاف حکومت ملے گی جس کا دامن کرپشن کی آلودگیوں سے پاک ہوگا لیکن ہر مرتبہ ہمارا یہ خیال بس خیال ہی رہتا ہے اور نئی حکومت پچھلی حکومت سے زیادہ کرپٹ اور بدعنوان بلکہ چور ثابت ہوتی ہے۔ کسی بھی فیصلے سے کرپشن کی بنیادیں کمزور نہیں ہوئیں صرف چہرے بدلتے رہے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف کرپشن کے مقدمے کا فیصلہ 6جولائی کو سنایا گیا۔ جو حلقے نواز شریف سے ہمدردی رکھتے ہیں نہ صرف انہوں نے بلکہ عالمی میڈیا نے بھی اس فیصلے کی کمزور بنیادوں کو نشانہ بنایا جبکہ دوسری طرف نواز شریف کے مخالف حلقوں کی جانب سے اسے کرپشن کے خلاف ایک عظیم کا میابی باورکرایا گیا۔ کیا نواز شریف کو سزادینے کے بعد آئندہ حکمران طبقہ کرپشن سے تائب ہوجائے گا۔ اب الیکشن کے نتیجے میں جو حکومت بنے گی اس کادور کرپشن سے خالی ہوگا۔ نہیں ایسا ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ نظام بجائے خود کرپشن کو فروغ دیتاہے۔ جب بھی کرپٹ سیا ست دانوں پر گرفت کی جاتی ہے وہ اتحاد بنالیتے ہیں اور کسی نئے پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا شروع ہوجاتے ہیں جو انہیں ایک مرتبہ پھر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دیتاہے۔ کل زرداری کرپشن کنگ تھے۔ کرپشن کے مقدمات بھگتا اور جیلیں کاٹ رہے تھے لیکن پھر اس سسٹم کا اعجاز تھا کہ ملک کے سب سے بڑے منصب عہدہ صدارت تک جا پہنچے۔ آج نواز شریف اور ان کی صاحبزادی جیل کاٹ رہے ہیں لیکن وہ دن دور نہیں جب وہ ایک مرتبہ پھر اقتدار کے ایوانوں میں ہوں گے۔
ایسا صرف پاکستان ہی میں نہیں ہے۔ ملائیشیا کی مثا ل ہمارے سامنے ہے۔ مہاتیر محمد کا ملائیشیا۔ 1980کی دہائی میں انور ابراہیم ان کا دایاں بازو تھے۔ انہیں مہاتیر محمد کا جانشین اور ملائیشیا کا اگلا وزیر اعظم سمجھا جاتا تھا لیکن پھر مہاتیر محمد اور انور ابراہیم میں شدید اختلافات پیدا ہوئے اورکرپشن اور ایک اخلاقی نوعیت کا شدید الزام لگا کر انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ وہ پانچ برس جیل میں رہے۔ خیا ل کیا جاتا تھا کہ ان کا سیاسی سفر تمام ہو گیا ہے۔ اس موقع پر ان کی اہلیہ نے ان کا بھرپور ساتھ دیا اور سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔ وہ ایک بار رہا ہوئے ان پر مقدمہ ثابت ہوا اور انہیں ایک بار پھر جیل ڈال دیا گیا۔ ان کی بیوی مگر سیاست کے میدان میں جمی رہیں۔ یہاں تک کہ اسی برس دو ماہ پہلے مئی کے مہینے میں انتخابات ہوئے۔ ان کی پارٹی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ انہوں نے مہاتیر محمد کو واپس بلایا۔ فیصلہ ہوا کہ مہاتیر محمد دوبرس کے لیے وزیراعظم ہوں گے اور انوار ابراہیم کی بیگم نائب وزیراعظم۔ بادشاہ سے وہی مہاتیر محمد انور ابراہیم کی سزامعاف کرنے کی درخواست کریں گے جنہوں نے انور ابراہیم پر کرپشن کے الزامات عائد کیے تھے۔ 16مئی کو انور ابراہیم رہا کردیے گئے۔ انتخابی اتحاد کے مطابق دوبرس بعد انور ابراہیم ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم ہوں گے جن پر اخلاقی نوعیت کا کرپشن سے بھی زیادہ سنگین الزام لگایا گیا تھا جس کے تحت انہوں نے جیل بھی کاٹیں۔اب ملائشیا میں سابق وزیراعظم نجیب رزاق کرپشن کے الزامات کی زد میں ہیں۔
پاناما پیپرز سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیامیں روس سے لے کرجنوبی امریکا تک یہ نظام ہی کرپشن کو زندگی عطا کرتاہے۔کئی دہائیوں سے سرمایہ دارانہ نظام دنیا بھرمیں ایسی آف شور کمپنیاں تخلیق کررہا ہے تاکہ حکمران اپنی کرپشن کی نا جائز دولت کو ان میں چھپا سکیں۔ ان کی تلاش آسان ہو اور نہ ہی ان پر مقدمات چلائے جاسکیں۔ کرپشن اور چوری کی یہ رقومات بھی ایک بڑا سبب ہیں کہ دنیا بھر میں امیر ممالک امیر سے امیر اور غریب ممالک غریب سے غریب تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ دنیا بھر میں جہاں یہ نظام کام کررہا ہے افراد کی بھی یہی صورت حال ہے کہ غریب شہریوں کو ہر قسم کی مہنگائی، جبر اور استحصال کا سامنا ہے۔ اس نظام میں رہ کر اس نظام کی دولت آفرینی کے ایک بڑے ذریعے کرپشن کا خاتمہ نا ممکن ہے۔ اس سلسلے میں جو الزامات عائد کیے جاتے ہیں مقدمات چالائے جاتے ہیں اور سزائیں دی جاتی ہیں ان کی حیثیت ایک فریب سے زیادہ نہیں جن کے نتیجے میں نہ تو کرپٹ حکمرانوں کو ایوان اقتدار سے دور رکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی کرپشن کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر ہی ایسی حکو متوں کا قیام ممکن ہے جو کرپشن سے پاک ہوں۔ صرف اسلام ہی ایسے حکمران دے سکتا ہے جو حکومت میں آتے ہی اپنے ذاتی کاروبار سے کنارہ کش ہوجائیں جو ایک چادر کی کرپشن کے الزام میں اپنے آپ کو صفائی کے لیے ایک بدو کے سامنے پیش کردیں، جو انتہائی سادہ زندگی گزاریں، جو ناکافی گواہی کی وجہ سے یہودی کے حق میں اور اپنے خلاف عدالتی فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرلیں۔ مغرب میں امریکا سے لے کر مشرق میں چین تک پوری دنیا کے عوام اس نظام سے تنگ اور عاجز ہیں۔ دنیا ایک نئے نظام کی تلاش میں ہے جو جلد یا بدیر اسلام ہی ہوگا۔ اسلام کے سوا کوئی نظام انسانیت کے دکھوں کا مداوا نہیں کرسکتا۔