چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے عدلیہ پر کسی قسم کے دباؤ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کسی دباؤ کے بغیر قانون کی حکمرانی کے لیے کام کر رہی ہے۔ چیف جسٹس کا یہ بیان اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر کے جواب میں آیا۔ جسٹس شوکت عزیز نے الزام عائد کیا کہ عدلیہ بندوق والوں کے کنٹرول میں آگئی ہے۔ چیف جسٹس کی طرف سے جسٹس شوکت عزیز کے الزام کی تحقیقات کا اعلان بھی کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک جج کے قصۂ درد کو پوری عدلیہ کی داستان رنج والم قرار نہیں جاسکتا مگر اس کے باوجود چیف جسٹس آف پاکستان نے اس الزام کی تحقیقات کا اعلان کر کے ایک بروقت قدم اُٹھایا ہے۔ پاکستان اپنی تاریخ کے فیصلہ کن دور سے گزر رہا ہے۔ اس کے گردو پیش کا منظر تبدیل ہو رہا ہے۔ عالمی تناظر میں تبدیلی وقوع پزیر ہے۔ پاکستان دہائیوں تک جن عالمی طاقتوں کے دامن سے وابستہ رہا وہ علاقے میں اس سے نظریں چرا کر اور دامن بچا کر کسی اور زلف گرہ گیر کی اسیر ہو چکی ہیں۔ وہ ’’کوئی اور‘‘ بھارت کے سوا کوئی اور نہیں۔
امریکا نے علاقائی سیاست میں پاکستان کی قطع وبُرید کرکے اسے بھارت کا ’’چھوٹا ‘‘بنانے کے لیے عشروں جو تدابیر اختیار کی تھیں ناکام ہو چکی ہیں اور پاکستان اپنے وجود کو بچانے اور سنبھالنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ جن کے نقشوں میں 2015 کے بعد پاکستان نام کے کسی ملک کا سراغ نہیں ملتا تھا پاکستان ایک حقیقت بن کر ان کا منہ چڑا رہا ہے۔ کولڈ اسٹارٹ آپریشن کا ان نقشوں سے گہرا تعلق تھا۔ اس فلاسفی کی بنیاد یہ تھی کہ جب پاکستان سیاسی انارکی، خانہ جنگی اور معاشی بدحالی کے باعث بکھرنے لگے گا تو کون سا علاقہ کیک کی طرح کس کے حصے میں آئے گا۔ اس کے ایٹمی ہتھیاروں کا کنٹرول کون سنبھالے گا۔ اسی ڈاکٹرائن کے تحت پاکستان کی قومی دولت اور سرمایہ جنگی بنیادوں پر ہر ذریعے سے منتقل کیا جاتا رہے گا۔ سندھ کے سابق وزیرداخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی وہ مشہور زمانہ پریس کانفرنس جو انہوں نے قرآن پاک ہاتھ میں اُٹھا کر کی تھی اس بات کا انکشاف شامل تھا کہ لندن یاترا کے دوران الطاف حسین نے ایک ملاقات میں ٹیبل لیمپ چھنکاتے ہوئے مخصوص اسٹائل میں کہا تھا کہ مرزا صاحب عالمی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان توڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور میں نے عالمی اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ نے قبائلی علاقوں، کراچی اور بلوچستان میں کھل کھیل کر اپنا زور بازو صرف کر کے دیکھ لیا ہے مگر پاکستان بہت کامیابی سے اس وار کو سہہ چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان ڈومور کرنے اور سننے پر تیار نہیں۔ اگر برسوں کی خدمت گزاری کا صلہ یہ تھا تو پھر پاکستان کا سارا سفر رائیگاں ہی گزرا۔ اس رفاقت سے رقابت ہی اچھی جس میں رفیق کام آنے کے بجائے مشکلات بڑھاتا چلا جائے۔ اس کھیل میں آنکھوں کا پانی ہی نہیں خوف بھی ختم ہو گیا ہے۔
پاکستان کو عالمی اور علاقائی سیاست میں اب کس رخ پر جانا ہے قریب قریب یہ بات بھی طے ہو چکی ہے۔ پاکستان نے بطور ریاست اپنے مقام کا تعین چین، روس، ایران، ترکی کی صورت اُبھرتے ہوئے نئے بلاک کے ساتھ کرلیا ہے۔ اس نئی راہ میں پاکستان روایتی اور فرسودہ طور طریقوں اور راستوں پر گامزن نہیں رہ سکتا۔ مغربی بلاک کے ساتھ پاکستان کی وابستگی ایک تلخ اور بھیانک یاد ہے۔ اب پاکستان نے اپنے لیے ایک نئے راستے کا تعین کیا ہے تو اس میں مضبوط احتسابی ادارے اور آزاد اور فعال عدلیہ کا وجود ناگزیر ہے۔
احتساب اور عدل کی حقیقت اور ضرورت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ قانون کی حکمرانی کے بغیر معاشروں میں جنگل کا قانون نافذ ہو جاتا ہے۔ قانون کی تفریق اور پسند وناپسند ریاستوں کے دیوالیہ ہوجانے کا باعث بنتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون کی عملداری بلا تفریق اور مکمل ہو۔ اس راہ میں طبقاتی تعصب سمیت کوئی رکاوٹ قبول نہیں ہونی چاہیے۔ کسی کو یہ سوال اُٹھانے کا موقع نہیں ملنا چاہیے کہ صرف ہمارا ہی احتساب کیوں ہو رہا ہے؟۔ نوازشریف اور ان کی جماعت اگر آج زد پر ہے تو آصف زرداری اور ان کی جماعت کا پنڈورہ باکس اس سے کہیں زیادہ وزن دار ہے۔ عمران خان بھی خیبر پختون خوا پر حکومت کر چکے ہیں۔ وہاں بھی ہر معاملے کی باریک بینی سے جانچ ہونی چاہیے۔ ایک طرف عمران خان کرپشن کو موضوع بنائے ہوئے تھے تو دوسری طرف اگر خیبر پختون خوا میں ان کی پارٹی اور حکومت کے نام پر کچھ لوگ اس تصور کی دھجیاں اپنے عمل سے بکھیر رہے تھے تو یہ بھی قابل گرفت ہے۔ اچھا ہوا اب احتساب کا رخ اس جانب بھی ہو رہا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ لوگ اپنی کرپشن کا دفاع نہیں کر رہے بلکہ اپنے دفاع کے لیے اس دلیل کا سہار لے رہے ہیں کہ صرف ہمارا ہی احتساب کیوں؟۔ حنیف عباسی کے کیس میں مسلم لیگ ن نے ان کے جرم کا دفاع نہیں کیا بلکہ اس فیصلے کی ٹائمنگ پر تنقید کی وہ اس مغالطے میں رہے کہ یہ فیصلہ شیخ رشید کی جیت کی راہ ہموار کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے یہاں انتخاب روک کر اس مغالطے کو ووٹ کو عزت دو اور خلائی مخلوق جیسے نعروں کا حصہ نہیں بننے دیا۔ جس سے ٹائمنگ کا اعتراض اپنی اہمیت کھوبیٹھا۔ اب صرف ایک اعتراض باقی رہ گیا ہے کہ فیصلہ رات بارہ بجے کیوں سنایا گیا؟۔ پوری دنیا کی نظریں عدالتی کمرے پر لگی تھیں اور جج آئی ایس پی آر سے فیصلہ منگوا رہے تھے؟۔ اس سے بڑی بچگانہ اور احمقانہ بات کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ مسلم لیگ ن کو مظالطوں نے بہت نقصان پہنچایا۔ ایسے ہی ایک مغالطے نے انہیں پاناما کیس کے فیصلے کے موقع پر مٹھائیاں بانٹنے پر مجبور کیا تھا۔ جس پر ٹویٹر پر کئی لوگ سوال پوچھتے ہوئے پائے گئے تھے کہ کیا عدلیہ نے اپنا فیصلہ عبرانی زبان میں تحریر کیا ہے جسے پڑھنے اور سمجھنے میں مسلم لیگ ن نے اتنا دھوکا کھایا۔ یہ مٹھائی بھی صدر ممنون حسین کی مشہور عالم تقریر ہی ثابت ہوئی جس میں انہوں نے پاناما کو اللہ کی طرف سے آنے والا فیصلہ کہہ کر بہت سی پیش گوئیاں کی تھیں جو حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئیں۔ پاکستان نئے راستوں اور نئی منزلوں کا راہی ہے اور اس راہ میں ماضی کی مصلحتیں اور رویے رکاوٹ نہیں بننے چاہیے۔ قانون کی حکمرانی بلاتفریق سب کے لیے ہوگی وگرنہ آج کے اسیروں کو اگلے دوچار ماہ بعد عزت واحترام کے ساتھ رہائی دینا پڑے گی۔