دِماغی صحت اور اس کی اہمیت

447

ڈاکٹر سیدہ صدف اکبر

عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق کسی بھی فرد کی دماغی حالت یا دماغی صحت ان عوامل یا ان حالات کا نام ہے جس سے گزر کر اور جس کو بہتر طریقے سے سمجھ کر وہ فرد اپنی زندگی کے حالات کو برداشت کر تے ہوئے اور اپنے روزمرہ کے کاموں کو بہتر طریقے سے سرانجام دیتے ہوئے معاشرے میں اپنا حصہ بہتر طریقے سے نبھا تا ہے۔ اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دماغی صحت کسی بھی فرد کی سماجی اور انفرادی بہبودو بھلائی اور معاشرے کی بہتر کارکردگی کی بنیاد ہوتی ہے ۔
موجودہ حالات میں پوری عالمی برادری مختلف ذہنی امراض سے دوچار نظر آتی ہے۔ ذہنی صحت کی حالت ابتر ہوتی جارہی ہے جس سے لوگوں میںمختلف ذہنی اور جسمانی عوراض جن میں نیند کی کمی، ڈپریشن ، غصہ، ہائی بلڈ پریشر، الزائمر ، عضلاتی اور ذہنی دبائو وغیرہ جیسے عوراض عام ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان میں بھی ذہنی امراض کے ماہرین کے مطابق ذہنی اور دماغی طور پر متاثرہ مریضوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ انسانی رشتوں میں خودغرضی کے عنصرکا بڑھ جانا اور مادی زندگی کی طرف لوگوں کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ لوگ مادی ترقی کی طرف تو گامزن ہیں مگر آج کل کے مختلف سوشل میڈیا اور گلوبل ولیج کے بڑھتے ہوئے عوامل کے باوجود بھی انسا ن روحانی اورسماجی اقدار میں زوال پذیر ی کا شکار نظر آتا ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود ہزاروں ، لاکھوں دوستوں کے باوجود بھی سماجی اور معاشرتی زندگی میں روابط کی کمی اور تنہائی کی وجہ سے دماغ غیر صحت مندی کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور اسی وجہ سے ملک میں خود کشی کا بڑھتا ہوا رجحان ، جرائم کی جانب متوجہ نوجوان، خودکش بم دھماکے ، غربت، بے روزگاری میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ لوگوں میںایک عجیب سی نہ ختم ہونے والی بے یقینی اور عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جارہا ہے جو ذہنی بے چینی ، چڑچڑےپن ، غصے اور ذہنی دبائو کا باعث بن رہا ہے ۔ یہ آگے بڑھ کر متاثرہ افراد میں مختلف ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں مثلاََ بلاوجہ کی فکر اور تشویش Anxiety، اعصابی اور ذہنی دبائو، احساس کمتری ، احساس برتری، الزائمر ،پا رکنسن کی بیماری ، رعشہ، حافظے کی کمزوری، بلاوجہ کا خوف، ڈپریشن، ذہنی دبائو، سر درد، دردِ شقیقہ، شیزوفرینیا، فرسٹیریشن، پاگل پن، احساس محرومی وغیرہ کے ساتھ فالج، لقوہ ، مرگی اور ہیٹسریا وغیرہ کا سبب بنتے ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں دماغی بیماری میں مبتلا لوگوں یا ذہنی طور پر غیر صحت مند افراد کے بارے میں اچھی رائے قائم نہیں کی جاتی ہے ۔ انہیں ایک بیمارکی طرح سمجھنے اور ان کا علاج کروانے کے بجائے پاگل، وہمی اور مختلف القابات سے نوازتے ہوئے دھتکار دیاجاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں ذہنی بیماریوں کے حامل افراد اپنی بیماریوں کو کسی کے سامنے بیان کرنے سے ڈرتے ہیں ۔ ان کے دل میں خوف ہوتا ہے کہ انہیں کہیں پاگل قرار نہ دے دیا جائے اور پھر معاشرے میں ان کی تعلیم اور روزگار کے ساتھ ان کی شادی بیاہ اور میل جول میں بھی مختلف برتائو شروع کردیا جاتا ہے۔ جس کے باعث وہ معاشرے سے کٹ کر رہ جاتے ہیں اور ان کے علاج میں تاخیر سے حالات مزید بگڑ نا شروع ہو جاتے ہیں۔
دماغی صحت میںکمزوری یا بیماری کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں۔ جن میں مختلف حیاتیاتی عوامل سے لے کر موروثی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ انسانی دماغ میں موجود نیو روٹرانسمیٹرس نامی مخصوص کیمیائی مادہ اگر کسی بھی وجہ سے عدم توازن کا شکار ہو جائے تو یہ دماغ کی غیر صحت مند ی کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ ان نیو روٹرانسمیٹر س کا کام دماغ میںموجود نیورو خلیات (Neuro Cells) کے ایک دوسرے سے رابطے کو یقینی بنا نا اور اس میں مدد کرنا ہوتا ہے ۔ جب یہ خلیات متاثر ہوتے ہیں تو دماغ میں پیغامات کی ترسیل یا پیغامات پہنچانے کا کام مناسب طریقے سے انجام نہیں پاتا، جس کی وجہ سے دماغ میں مختلف مسائل جنم لے سکتے ہیں ۔
ایک تحقیق کے مطابق نئے زمانے سے حاصل کی ہوئی کچھ عادات اور نئے طور طریقے بھی دماغی کمزوری کا سبب بن سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق وڈیو گیمز کو زیادہ وقت تک کھیلنے سے بھی دماغی کمزوری ہو سکتی ہے۔ تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ وڈیو گیمز کھیلنے والے تقریباََ 85 فیصد لوگ دماغی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ وڈیو گیمز دماغ کی یادداشت کو کمز ور کردیتے ہیں جو ان کی دماغی صحت کے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔ ڈپریشن یا ہمہ وقت مایوسی کا شکار افراد بھی دماغی کمزوری کا شکار ہو سکتے ہیں۔ مستقل اور ہر وقت ڈپریشن اورذہنی دبائو میں رہنے والے لوگ اپنے آپ کو زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے بھی دور کر لیتے ہیں اور پھر با لا آ خر ذہنی دبائو کے سمندر میں خود کو غرق کر کے اپنے آپ کو دماغی کمزوری اور بیماریوں کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ انیزائٹی نیو روسس(Anxiety Neurosis) میں مریض ہر وقت ڈر اور خوف کی سی کیفیت میں رہتا ہے ۔ اس کی شدت عموماََ 15 سے 40 سال کے افراد کے درمیان زیادہ ہوتی ہے ۔ اس میں متاثرہ فرد اپنے آپ کو بغیر کسی وجہ کے کسی نہ کسی مرض کا شکار سمجھنے لگتے ہیں جیسے کہ سردرد، جسم میں درد وغیرہ اور پھر اس میں اتنی شدت آجاتی ہے کہ وہ مرض واقعی میں شروع ہو جاتا ہے جبکہ بعض لوگوں میں انٹرویو یا امتحان سے پہلے پیٹ میں درد ، بخار اور دست وغیرہ کے مسئلے شروع ہو جاتے ہیں ۔
بائی پولر ڈس آرڈر(Bi Poler Disorder) ایک ایسی دماغی کیفیت کا نام ہوتا ہے جس میں مریض حد سے زیاد ہ خوشگوار یا پھر حدسے زیادہ اداس اور غمزدہ ہو جاتا ہے۔ اس مرض کا تعلق زیادہ تر وراثت سے ہوتا ہے یعنی یہ ذہنی بیماری خاندان میں ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو سکتی ہے۔ اسی طرح او سی ڈیObsessive-Compulsive DisorderOCD) ایک ایسی ذہنی کیفیت ہے جس میں متا ثرہ شخص کو ایک ہی خیال بار بار آتا ہے جیسا کہ باربار ہاتھ دھونا ، کسی بیماری کے لگ جانے کا خطرہ ، وہم کرنا ، کسی کو مار دینے کا یا پھر خود مرجانے کا خیال بار بار آنا۔
ا یک تحقیق کے مطابق روزمرہ زندگی میں مختلف صحت مند غذائوں کا ایک مناسب مقدار میں استعمال کر کے اور صحت بخش طرز زندگی اپنا کر ہم اپنے دماغی صحت کو بڑھا کر اس کو بڑھتی عمر کے ساتھ ایک صحت مند اور بہتر حالت میں رکھ سکتے ہیں ۔
جرمنی کی فر ینکفر ٹ یونیورسٹی کے فارماکولوجی انسٹیٹیوٹ کی تحقیق کے مطابق ذہنی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے کیمیائی اجزا مثلاََ کیفین کا زیادہ استعمال، مختلف مصنو عی خوراک اور دوائوں کا سہارا جو کہ ایک غیر صحت بخش طرز عمل ہے، کے بجائے جسمانی اور دماغی صلاحیتوں اور صحت بہتر بنانے کے لیے قدرتی غذائوں کا استعمال بہتر ہوتا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق صحت مند غذائوں کے استعمال کے ذریعے دماغی صحت اور صلاحیت کو طویل عرصے تک اور بہتر طریقے سے بڑھایا جاسکتا ہے ۔
ماہرین کے مطابق ہری سبزیاں جیسے کہ پالک، ساگ وغیرہ جن میں Anti Oxidants، ریشہ(Fibre)، مختلف وٹا منز اور غذائیت موجود ہوتی ہے انہیں ہفتے میں کم از کم ایک بار غذا میں ضرور شامل کرنا چاہیے۔ امریکی یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق پتے والی سبزیوں مثلاََ پالک ، بند گوبھی ، مولی وغیرہ میں ایک مادہ لیو ٹین (Lutein) موجود ہوتا ہے جو بیماریوں کے خلاف ایک مدافتی قوت رکھتا ہے ۔ ماہرین کے مطابق لیو ٹین یا دداشت کی تیزی میں اضافہ اور دماغی تھکاوٹ میں کمی کا باعث بننے کے ساتھ دماغی صحت میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ اسی طرح سے اومیگا تھری فیٹی ایسڈ (Omega- 3 Fatty Acids) یعنی کہ مچھلی کا استعمال ہر عمر میں دماغ کو اپنے افعال بہتر طریقے سے سر انجام دینے میں مدد دیتا ہے۔ یہ اومیگا فیٹی ایسڈ انسانی دماغ کی صحت اورطاقت کو بڑھانے کے لیے بہترین غذائوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق عمر رسیدہ افراد جن میں مختلف جسمانی امراض کے ساتھ ذہنی امراض کا بھی خدشہ رہتا ہے۔ ان میں مچھلی اور دالوں کا زیادہ استعمال انسانی دماغ کی نشوونما اور مختلف بیماریوں سے تحفظ کے ساتھ یادداشت برقرار رکھنے میں بھی مدد کرتا ہے ۔
تحقیق کے مطابق عمر بڑھنے کے ساتھ انسانی دماغ کی صحت بھی متاثرہونے لگتی ہے اور جو لوگ مچھلی کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں ان کی دماغی قوت ، یا دداشت اور ذہانت مچھلی کا کم استعمال کرنے والے لوگوں کی نسبت زیادہ بہتر اور فعال حالت میں ہوتی ہے۔ لہٰذا دماغ کی صحت کو قائم رکھنے کے لیے ہفتے میں کم از کم ایک یا دوبار مچھلی کا استعمال اپنے روزمرہ کے معمول کا لازمی حصہ بنا لینا چاہیے۔ اس کے علاوہ مختلف اقسام اور رنگ کے بیریز (Barries)اور چیریز (Cherries) بھی ایک صحت مند دماغ کے لیے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ ان میں اینتھو سیانن(Enthocyanins) اور مختلف فلیونوئیڈز (Flavonoids) موجود ہوتے ہیں جو دماغی صحت کے لیے لازم ہیں ۔
ماہرین کے مطابق مختلف اقسام کے بیج(Seeds) یا چنے جوکہ میگنیشیم سے بھرے ہوتے ہیں، وہ دماغی خلیات کے ریسپٹرز کے لیے بے حد فائدہ مند ہوتے ہیں اور یہ پیغامات کی ترسیل کی رفتار کو تیز کرکے ان کو فعال رکھتے ہیں۔ بیج میں موجود میگنیشیم خون کی شریانوں کو کھول کر دماغ تک خون کی زیادہ اور متواتر فراہمی کو بھی درست طریقے سے انجام دینے میں مدد کرتے ہیں ۔
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق رنگ برنگی سبزیوں اور پھلوں کا استعمال دماغی صحت کے لیے بہترین ہے ۔پیلی ، نارنجی اور سرخ سبزیوں اور پھلوں میں Carotenoids موجود ہوتا ہے جو دماغ کو بہتر طور پر فعال اور مستعد بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ اس میں Anti Oxidants بھی موجود ہوتے ہیں جو مختلف دماغی اور ذہنی امراض سے محفوظ رکھتے ہیں ۔ امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ٹماٹر، نارنجی، گاجریں ، انار اور دیگر رنگ برنگی سبزیاں اور پھل کھانے سے دماغی اور ذہنی صحت ، ارتکاز اور ردِ عمل کی قوت میں اضافے کے ساتھ یادداشت میں کمی اور فیصلے کی کمزوری جیسے امراض پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔
ہلدی ہمارے باورچی خانوں کے مصالحہ جات کا ایک لازمی جزو ہے۔ جس میں Anti Oxidant وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے جو دماغ میں مختلف نقصان دہ اجزا کی سطح کو بڑ ھنے سے روکتا ہے جو کہ آگے بڑھ کر الزائمر اور ڈیمنیشا جیسے دماغی امراض کا باعث بنتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ Anti Oxidants یادداشت میں بہتری لانے اور دماغی خلیات کی نشوونما میں بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔
دماغی بیماریوں میں مبتلا فرد اپنا علاج کروانے پر بھی آ مادہ نہیں ہوتا جس کے باعث جسمانی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جبکہ دماغی بیماری کے سبب مختلف معاشرتی مسائل مثلاً بے روزگاری ، غربت ، مشترکہ خاندانی نظام کا بکھر جانا، منشیات کا زیادہ استعمال اور دیگر جرائم میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور ذہنی طور پر بیمار شخص کی کارکردگی یا کام کرنے کی صلاحیت ایک صحت مند فردکے مقابلہ میں کافی ابتر ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ مختلف امراض یعنی ذیابیطس، کینسر اور دل کے امراض وغیرہ میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ اسی طرح مختلف جسمانی بیماریاں بھی ذہنی کمزوری یا دماغی بیماریوں کو دعوت دیتے ہیں اور انکا باعث بنتے ہیں ۔ ماہرین کے مطا بق ہا ئی بلڈ پریشر ، کولیسٹرول کی مقدار میںکمی وبیشی، شوگر کا غیر متوازن ہونا، خون کی شریانوں کی کار کردگی کو متاثر کرنے کے ساتھ دماغ کو درکار خون کی مقدار فراہمی میں بھی رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں جن سے انسان ڈیمنیشا یا پھر مختلف ذہنی یا دماغی امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ایسی بیماریوں کا بروقت اور درست علاج کروالینا چاہیے جو انسان کی دماغی صحت کو متاثر کرکے اسے مختلف دماغی بیماریوں میں مبتلا کر سکتی ہیں ۔
انسانی جسم میں ذہنی اور نفسیاتی صحت برقرار رکھنے کے لیے ایک مکمل اور پرسکون نیند بے حد ضروری ہوتی ہے ۔ ماہرین کے مطابق 8 گھنٹے کی نیند ذہنی طورپر موثر ہوتی ہے اور یہ دن بھر کی تھکاوٹ کو دور کرکے جسم اور دماغ کو دوبارہ سے اپنی کھوئی ہوئی توانائی بحال کرنے میں (باقی صفحہ 09پر)
مدد دیتی ہے ۔ صبح جلدی بیدار ہونے اور رات میں جلدی سونے کی عادت کو اپناتے ہوئے کوشش کرنی چاہیے کہ کسی بند اور گھٹن زدہ ماحول میں سونے کے بجائے ہوا دار اور کھلی جگہ پر سوئیں جہاں سے دماغ تک آکسیجن کا پہنچنا ممکن ہو سکے جو دماغ کی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ منفی جذبات مثلاََ غصہ ، حسد، لالچ ، کینہ اور حرص وغیرہ سے مکمل طور پر اجتناب برتتے ہوئے صبروتحمل اور ضبط سے کام لینا چاہیے اور اپنے رشتے داروں اور ملنے جلنے والے لوگوں سے ہمیشہ خوش اخلاق اور حسن سلوک سے ملنا چاہیے اور اگر کسی کی کوئی بات بُری لگے یا کسی کی بات یا رویے سے کوئی تکلیف پہنچی ہو توا سے درگزر کر دینا چاہیے کیونکہ ہر منفی بات کو دماغ میں بٹھانے یا ہمہ وقت اس کے بارے میں سوچنے سے مختلف منفی انزائمز یا خیالات جنم لیتے ہیں جو دماغی خلیات کے لیے بے حد نقصان دہ ہوتے ہیں ۔ اپنے آپ کو کسی بھی قسم کے احساس کمتری یا احساس برتری کا شکار نہیں ہونے دینا چاہیے اور تمام لوگوں کو اشرف المخلوقات سمجھتے ہوئے عزت واحترام اور پیار سے پیش آنا چاہیے۔
ایک تحقیق کے مطابق مراقبہ یعنی تنہا ئی میں بیٹھ کر خاموشی اور یکسو ئی سے ارتکاز اور ورزش کی عادت ذہنی اور جسمانی دونوں کی صحت کے لیے بے حد اہمیت کی حامل ہوتی ہیں ۔ مختلف دماغی کھیل کو اپنی روزمرہ زندگی میں شامل رکھیں مثلاََ شطرنج وغیرہ کیونکہ اس سے دماغ کے کام کرنے کی صلاحتیں بڑھتی ہیں اور وہ فعال رہتا ہے۔ لہٰذا ایسی بیماریوں کا بروقت اور درست علاج کروالینا چاہیے جو انسان کی دماغی صحت کو متاثر کرکے اسے مختلف دماغی بیماریوں میں مبتلا کر سکتی ہیں ۔ ایک تحقیق کے مطابق ایسی سرگرمیاں جن کا تعلق سوچنے اور سیکھنے سے ہو وہ دماغ میں نئے خلیات بنانے میں مدد دیتی ہیں اور پھر یہ الزائمر اور ڈیمنیشا جیسے امراض سے محفوظ رکھتی ہیں ۔ اس کے ساتھ روزانہ کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے جس سے دماغ کے خلیات فعال حالت میں رہتے ہیں۔ اخبارات اور مختلف رسائل میں چھپنے والے مختلف پز لز (Puzzles) اور (Riddles) کو حل کرنے کی کوشش کے ساتھ نئی زبانیں اور کورس کرنے چاہییں اور روزانہ کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔سماجی سرگرمیوں کا لطف اٹھانا چاہیے اور اپنے دوستوں، خاندان ، اپنی پسند کے لوگوں اور پسند کے کاموں میں وقت گزارنا دماغی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ دوسرے لوگوں کے ساتھ گھلنے ملنے سے نئے دماغی خلیات بنتے ہیں اور ان میں تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ لہٰذا دن بھر اپنے کمرے میں یا ماضی میں گم تنہائی میں بیٹھے رہنے سے بہتر ہے کہ اپنے دوستوں اور عزیز واقارب کے ساتھ کچھ وقت گزار لیا جائے۔ اسی طرح جسمانی طور پر سرگرم رہنا ہمارے دماغ کی صحت کو فروغ دیتا ہے۔ باقاعدہ ورزش یا مختلف جسمانی سرگرمیاں دماغ میں خون کے بہائو کو بڑھا کر دماغ میں نئے خلیات کے بننے اور ان کے درمیان تعلق کو درست طریقے سے بحال کر تے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ورزش نہ صرف جسمانی بلکہ نفسیاتی اور دماغی طور پر بھی انسانی صحت کے لیے بے حد اچھے اور مفید اثرات مرتب کرتی ہے۔ نیو یارک یونیورسٹی کے سنیٹر فارنیورل سائنس (Center for neural Science) کے ماہرین کے مطابق ورزش دماغی صحت کے ساتھ موڈ کو بھی اچھا کرنے کے لیے بے حد فائدہ مند ہوتی ہے ۔ ایک اور تحقیق کے مطابق سائیکل چلانا بھی دماغی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہے ۔
ایک اور لچسپ عالمی تحقیق کے مطابق ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند رہنے کے لیے شادی انسان زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی آف اوٹاگوکے مطابق شادی شدہ افراد غیر شادی شدہ افراد کی بہ نسبت زیادہ پرسکون اور صحت مند زندگی گزارتے ہیں ۔ اور شادی شدہ افراد کے مقابلے میں غیر شادی شدہ افراد میں ذہنی دبائو ، ڈپریشن ، انزائٹی (Anxiety) اور دیگر ذہنی بیماریاں زیادہ پائی جاتی ہیں ۔
بوسٹن یونیورسٹی میں نیورولوجی کے ماہرین کے مطابق روزانہ سافٹ ڈرنکس، فروٹ جوسز اور مصنوعی مٹھاس والے شربت استعمال کرنے سے دماغ کے حجم میںکمی اور یاداشت متاثر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے جس سے فالج ہونے کے امکانات 3 گنا تک بڑھ جاتے ہیں ۔
اس کے علاوہ دنیا بھرمیں پھیلتی ہوئی گلوبل وار منگ یا ماحولیاتی آلودگی دماغی صحت کو بری طرح متاثر کرنے کا ایک اہم سبب ہے ۔ ماحولیاتی زہریلے مادے مختلف فری ریڈ یکلز بناتے ہیں جو ہمارے دماغ کو کمزور کردیتے ہیں ۔ہمارے اردگرد ہمارے گھرو ں میں ایسی بہت سی چیزیں موجود ہیں جو ہماری ذہنی صحت کو نقصان پہنچا رہی ہیں ۔ مائیکرو ویو کا استعمال کم سے کم کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ مائیکروویو میں کھانا گرم کرنے کے لیے پلاسٹک کے برتنوں کا ہر گز استعمال نہ کریں۔ بائیو لوجیکل انٹر یکشن نامی جریدے کے مطابق آ ر گینو فاسفورس پیسٹی سائیڈز (Organophosphorus pesticides) کی مسلسل فراہمی دماغی صحت کے بہتر فعالیت اور کارکردگی کو بے حد متاثر کر تی ہیں ۔ اور یہ کیمیکل دماغ میں حدت پیدا کر کے دماغ کو کمزور کردیتے ہیں ۔ اس سے بچنے کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اگر گھر میں کوئی پودے لگانے کی گنجائش موجود ہو تو وہ سبزیاں اور پھل جوآرام سے گھر پر نشوونما پا سکتے ہیں انہیں لگانا چاہیے تاکہ جتنی حد تک ممکن ہو سکے ان کیمیکلز سے بچا جائے ۔
ذہنی اور دماغی پریشانیوں کی کیفیت میں مبتلا لوگ ہمیں تقریباََ ہر گھر میں نظر آئیں گے۔ لہٰذا اگر ہم خود کو یا اپنے اردگرد اپنے کسی پیارے کو ایسی کسی دماغی غیر صحت مندانہ کیفیت سے دوچار دیکھیں تو اسے اکیلا چھوڑنے یا مذاق کا نشانہ بنانے کے بجائے فوری طور پر کسی ماہر نفسیات سے رابطہ کرنا چاہیے اور 55 سال کی عمر کے بعد دماغی صحت کے حوالے سے ڈاکٹر سے باقاعدہ چیک اپ کرواتے ر ہنا چاہیے کیونکہ زیادہ تر ذہنی امراض کا آغاز 55 سال کی عمر کے بعد ہی ہوتا ہے ۔
ہمیں زندگی کو ایک مثبت طرزذہن اور ایک صحت مندانہ طریقے سے گزارنے کے لیے ہمیشہ خود کو پُر امیداور مثبت انداز فکر کے ماحول میں ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے جس سے ہم مختلف ذہنی امراض سے محفوظ رہتے ہوئے ایک صحت مند دماغ کے ساتھ معاشرے کے ایک اہم رکن کی حیثیت سے اپنی زندگی گزار سکتے ہیں ۔