جمہوریت کا نیا سفر

306

2008ء میں آمر جنرل پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد سے جمہوریت کا سفر جاری ہے گو کہ اس راہ میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن قافلہ جوں توں کرکے آگے بڑھتا رہا۔ تب سے یہ تیسرا عام انتخاب ہے جو 25 جولائی کو عمل میں آیا۔ ابھی تک مکمل نتائج سامنے نہیں آئے تاہم جمعرات کی شب تک موصول ہونے والے نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کی نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف سر فہرست ہے اور عمران خان کے وزیراعظم بننے کے امکانات قوی ہیں۔ 1970ء میں جس طرح مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی لہر چل پڑی تھی اور دعویٰ کیا جاتا تھا کہ پیپلزپارٹی اگر کھمبے کو بھی کھڑا کردے تو وہ جیت جائے گا اس بار بھی یہی ہوا اور کئی کھمبے جیت گئے۔ عمران خان نے یہ ریکارڈ بھی قائم کیا کہ پانچوں نشستوں سے جیت گئے جب کہ ذوالفقار علی بھٹو چار نشستوں پر لڑے لیکن ایک پر ہار گئے تھے۔ اس بار کئی بڑے بڑے برج الٹ گئے اور کراچی کے انتخابی نتائج حیرت انگیز رہے۔ کراچی اور حیدرآباد کئی عشروں کے بعد ایم کیو ایم کے شکنجے سے آزاد ہوئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو متحدہ قومی موومنٹ کا متحد نہ رہنا ہے دوسری بڑی وجہ الطاف مافیا کا عدم وجود ہے۔ الطاف حسین نے بندوق کی نوک پر اپنے گروہ کو متحد رہنے پر مجبور کر رکھا تھا۔ یہ قلادہ اترتے ہی ایم کیو ایم بکھر گئی اور نئی قیادت نالائق ثابت ہوئی۔ اس بار اسے جیتنے کے لیے مخصوص ہتھکنڈے آزمانے کا موقع بھی نہیں مل سکا۔ ایم کیو ایم کو طویل عرصے تک یہ موقع میسر رہا کہ وہ دلوں کو جیتنے کی کوشش کرتی لیکن عوام کو خوف کے حصار میں بند رکھا گیا۔ الطاف حسین کے سب سے بڑے وکیل عامر لیاقت نے بروقت درست اندازہ لگاکر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی جو اس سے پہلے عمران خان کی مخالفت میں آگے آگے تھے۔ لیکن انتخابی سیاست میں یہ تو ہوتا ہی ہے، راولپنڈی کے شیخ رشید کے بارے میں عمران خان نے کہا تھا کہ میں تو اس کو اپنا چپراسی بھی نہ رکھوں لیکن شیخ رشید عمران خان کی خاطر بیگانی شادی میں ڈھول بجاتے رہے۔ ان کو جتوانے کے لیے ان کے حریف حنیف عباسی کو ایک ہفتہ پہلے جیل بھیج دیا گیا حالانکہ ان پر 2012ء سے مقدمہ چل رہا تھا۔ فیصلہ عدالت کا ہے اس لیے اس پر تبصرہ نہیں کیا جاسکتا لیکن ٹائمنگ پر تو بات ہوسکتی ہے۔ ایک اور حیرت انگیز نتیجہ لیاری کا ہے جو پیپلزپارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے اسی لیے نوخیز بلاول زرداری کو وہاں سے کھڑا کیا گیا لیکن ان کی پہلی ریلی ہی پر پتھراؤ ہوگیا اور مٹکے برسائے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بلاول وہاں سے ہار گئے، چارسدہ سے لڑواکر بلاول کو پریشانی میں ڈالا۔ لاڑکانہ سے بلاول کی کامیابی اہم نہیں۔ ملیر بھی پیپلزپارٹی کا گڑھ سمجھاجاتا رہا ہے لیکن یہاں بھی پیپلزپارٹی پیچھے رہ گئی۔ مجموعی طور پر پاکستان پیپلزپارٹی تیسرے نمبر پر رہی جب کہ آصف زرداری کا دعویٰ تھا کہ مرکز اور چاروں صوبوں میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہوگی۔ وہ دوسرے نمبر پر بھی نہیں آسکی۔ پنجاب میں صوبائی نشستوں پر مسلم لیگ ن آگے ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ 2013ء کی طرح مرکز میں کسی اور کی حکومت ہوگی اور پنجاب و سندھ میں کسی اور کی اور اس طرح مرکز اور صوبوں میں محاذ آرائی کی فضا گرم رہے گی۔ نتائج سو فی صد سامنے نہیں آئے تاہم عمران خان مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ امید کی جانی چاہیے کہ عمران خان وزیراعظم کا اہم منصب سنبھالنے کے بعد سنبھل جائیں گے اور یوٹرن لینے کی شہرت سے پیچھا چھڑالیں گے وہ اور ان کی پارٹی مرکز میں پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے گی۔ ابھی تک عمران خان نے خارجہ اور اقتصادی پالیسی کے بارے میں سوائے دعوؤں کے کوئی ٹھوس منشور پیش نہیں کیا ہے البتہ خیبر پختونخوا میں پودے لگانے اور درخت اگانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایک کروڑ بے روزگاروں کو روزگار دیں گے۔ اس پر کیسے عمل ہوگا، یہ دیکھنا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی ٹیم میں اقتصادی ماہرین بھی ہوں اور اگر نہ بھی ہوں تو سابقہ حکومت بھی عرصے تک وزیر خارجہ اور خزانہ کے بغیر کام چلاتی رہی ہے۔ عمران خان نے کرپشن سے نجات دلانے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ خدا کرے کہ ملک اس عظیم لعنت سے چھٹکارا پالے لیکن خود خیبر پختونخوا اس سے نجات حاصل نہیں کرسکا اور اس ضمن میں کچھ مقدمات بھی چل رہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ شر میں سے خیر بر آمد کرنے پر قادر ہے۔ عمران خان کے کردار پر بڑے سنگین الزامات لگتے رہے ہیں اور ان میں کچھ حقیقت بھی ہے لیکن پاکستان پر تو یحییٰ خان اور جنرل پرویز مشرف جیسے شرابی اور بد کردار لوگ بھی حکومت کر گئے ہیں۔ جمہوریت کا چیمپئن باور کرائے جانے والے ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں مخالفین پر مظالم ڈھانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی اور ان کے داماد آصف علی زرداری جو 5 برس تک اس ملک کے صدر رہے، آج بھی کرپشن کے الزامات کی زد میں ہیں۔ ان کے مقابلے میں عمران خان پر مالی کرپشن کا کوئی الزام سامنے نہیں آیا جب کہ میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی، داماد مالی بد عنوانی کے الزام میں جیل میں ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں اور مبصرین کی طرف سے یہ تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ عمران خان کو خلائی مخلوق کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے اور دوسری جماعتوں کو کھل کر اپنی مہم چلانے نہیں دی جارہی۔ فوج کی طرف سے اس کا تردید کی جاتی رہی ہے۔ کچھ دن پہلے ہی عدالت عالیہ اسلام آباد کے سینیر جج جناب شوکت عزیز نے بھی الزامات لگائے ہیں کہ فوج کا ایک ادارہ عدالتی معاملات میں بھی دخیل ہے اور ججوں کو احکامات جاری کرتا ہے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت ماضی میں عام رہی ہے تاہم فوج کے موجودہ سربراہ جنرل باجوہ یقین دلاتے رہے ہیں کہ فوج غیر جانبدار اور جمہوریت کی محافظ ہے۔ تحریک انصاف کی آناً فاناً ملک گیر مقبولیت اور نمایاں کامیابی ہوسکتا ہے کہ عمران خان کی جد وجہد کا نتیجہ ہو لیکن کراچی میں تو تحریک انصاف نے کبھی کوئی کام ہی نہیں کیا اور اس کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا اس کے باوجود کراچی سے نشستیں حاصل کرنے پر تعجب ہی کیا جاسکتا ہے۔ انتخابی نتائج سے عدم اتفاق اور احتجاج پرانی روایت ہے اور ہارنے والے ہمیشہ نتائج کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ اس بار بھی یہی ہوا ہے چنانچہ 8 بڑی سیاسی جماعتوں نے نتائج مسترد کردیے ہیں۔ صرف اے این پی کے رہنما حاجی غلام احمد بلور نے شکست تسلیم کرلی ہے۔ پیپلزارٹی بھی گو مگو میں ہے کیونکہ اسے سندھ میں برتری حاصل ہوگئی ہے اور احتجاج کرنے پر یہ برتری خطرے میں پڑسکتی ہے۔ جن سیاسی جماعتوں نے نتائج مسترد کیے ہیں انہوں نے کل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے تاکہ مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جائے۔ چشم دید گواہوں کے مطابق دھاندلی کے نئے نئے طریقے آزمائے گئے ہیں۔ کہیں پر پولنگ ایجنٹوں کو زبردستی باہر نکال دیا گیا اور کہیں فارم 45 نہیں دیے گئے۔ ووٹوں کی گنتی میں بھی دھاندلی کی گئی تاہم الیکشن کمیشن نے اعتراضات مسترد کردیے۔ اسے ایسا ہی کرنا چاہیے تھا کیونکہ زد اسی پر پڑ رہی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر انتخابی انتظامات سے 99 فی صد تک مطمئن ہیں۔ عین وقت پر کئی پولنگ اسٹیشن تبدیل کیے گئے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جس پولنگ اسٹیشن کی نشاندہی کی گئی وہاں جاکر معلوم ہوا کہ جگہ بدل دی گئی ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ پولنگ اسٹیشن پر تالا پڑا ہوا تھا۔ لمبی لمبی قطاروں اور غیر ضروری تاخیر سے تنگ آکر کئی ووٹرز واپس چلے گئے۔ این اے 245 پر تو یہ تماشا ہوا کہ پی آئی بی کالونی کا پولنگ اسٹیشن پولنگ کے دوران ہی تبدیل کردیاگیا۔ 4 گھنٹے تک پولنگ ہونے کے بعد پولنگ اسٹیشن غوثیہ کالونی منتقل کردیاگیا۔ ایسا کیوں ہوا اور اس عرصے میں کیا کچھ ہوا، اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات سرکاری اہلکاروں کا رویہ توہین آمیز تھا جیسے رائے دہندگان ان کے غلام اور کوئی حقیر مخلوق ہیں۔ پولیس کا رویہ نسبتاً مہذبانہ تھا۔ یہ بھی ہوا ہے کہ گنتی کے دوران میں عملے نے پولنگ ایجنٹوں کو بیلٹ پیپر دکھانے سے انکار کردیا اور بس انتخابی نشان کا اعلان کردیا، ہر طرف بلے بلے ہوتی رہی۔ عمران خان نے بھی ضابطے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میڈیا کے سامنے بلے پر مہر لگائی جس پر الیکشن کمیشن نے انہیں 30 جولائی کو طلب کرلیا ہے۔ عمران خان حاضر نہ ہوئے تو بھی کوئی کیا بگاڑے گا، صورتحال یہ ہے کہ نئے کردار آتے جارہے ہیں مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ملک و قوم پر رحم کرے اور حکمرانوں کو راہ راست پر چلنے کی توفیق دے۔