شریفوں کی اسلام دوستی اور حب الوطنی

729

جو نسل گزشتہ دس‘ پندرہ سال کے دوران بڑی ہوئی ہے اسے اندازہ بھی نہیں ہوسکتا ہے کہ کس طرح میاں نواز شریف اور ان کی جماعت نے پوری قوم کے دس‘ بارہ برسوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکا ہے۔ اس دعوے کی وضاحت یہ ہے کہ میاں صاحب اور ان کی جماعت نے پوری قوم کو دس‘ بارہ سال تک پیپلزپارٹی کے حامیوں اور پیپلزپارٹی کے مخالفوں میں تقسیم کیے رکھا اور قوم کو کسی تیسرے یا نئے امکان کے بارے میں سوچنے ہی نہیں دیا۔ بدقسمتی سے اس کشمکش کا کوئی نظریاتی حوالہ ہی نہیں تھا۔ بلاشبہ کسی زمانے میں پیپلزپارٹی کا ایک نظریہ تھا مگر میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کا کسی بھی نظریے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ شریف خاندان کے دسترخوان سے استفادہ کرنے والے نام نہاد صحافیوں نے یہ تاثر ضرور پیدا کر رکھا تھا کہ میاں نواز شریف اور ان کا خاندان مذہب اور پاکستانیت میں ڈوبا ہوا ہے۔ لیکن جاننے والے جانتے تھے کہ شریف خاندان کی مذہبیت اور پاکستانیت میک اَپ کے سوا کچھ نہیں۔ جس طرح ہمیں یقین تھا کہی ہم اپنی زندگی میں الطاف حسین اور ان کی ایم کیو ایم کا زوال دیکھیں گے اسی طرح ہمیں کامل یقین تھا کہ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی مذہبیت اور پاکستانیت کی اصل حقیقت بھی ہم اپنی زندگی ہی میں اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم نے شریفوں کو مذہب کے پاؤڈر اور پاکستانیت کے غازے سے محروم ہوتے ہوئے دیکھ لیا۔
چوہدری شجاعت حسین میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے ساتھی بھی رہے ہیں اور اتحادی بھی۔ چنانچہ شریفوں کے بارے میں ان کی گواہی محرمِ راز درون مے خانہ کی گواہی ہے۔ چوہدری صاحب نے اپنی خود نوشت ’’سچ تو یہ ہے‘‘ میں کہا ہے کہ انھوں نے شریفوں کے ساتھ شراکت اقتدار کا سمجھوتہ کیا تو سمجھوتے کو معتبر بنانے کے لیے شہباز شریف قرآن مجید اٹھا لائے اور قرآن پاک کو ضامن بناتے ہوئے کہا کہ آپ سے کیے گئے تمام وعدے پورے کیے جائیں گے۔ مگر چوہدری شجاعت کے مطابق شریفوں نے اپنا کوئی بھی وعدہ پورا نہ کیا۔ ایک مسلمان تو عام وعدے کی بھی پاسداری کرتا ہے مگر کمزور سے کمزور مسلمان بھی اگر قرآن پاک پر حلف اٹھا لے یا اسے ضامن بنا لے تو پھر مسلمان کی جان تو جا سکتی ہے مگر وہ اپنے وعدے سے انحراف نہیں کرسکتا۔ مگر چوہدری شجاعت کا بیان ہے کہ ’’شریف لوگ‘‘ قرآن مجید کو ضامن بنا کر بھی اپنے وعدے سے پھر گئے۔ میاں نواز شریف یا ان کے خاندان کو اگر اس انحراف پر کوئی احساسِ جرم لاحق ہوتا تو وہ ضرور چوہدری شجاعت سے معافی مانگتے اور خداوند پاک سے بھی معافی کے خواستگار ہوتے۔ مگر جیسا کہ ظاہر ہے شریفوں کو نہ کوئی احساسِ جرم لاحق ہوا نہ انھوں نے چوہدری صاحب سے کوئی معذرت کی۔ ایسے جیسے کہ قرآن مجید کو ضامن بنانے اور اس حوالے سے کیے گئے وعدے کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔ کیا بھٹو خاندان یا اس کی کسی رکن سے اس قسم کا ’’روحانی جرم‘‘ منسوب ہے یا فرض کیجیے بھٹو خاندان یا پیپلزپارٹی سے اس طرح کی کوئی واردات منسوب ہو جاتی تو دائیں بازو بالخصوص شریف خاندان کے وفادار صحافی بھٹو خاندان یا پیپلزپارٹی کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیتے اور کہتے کہ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ بھٹو خاندان کے دل میں مذہب کی کوئی قدر نہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ بے نظیر بھٹو نے ایک بار ایک جلسے میں اذان کی آواز سن کر کہہ دیا تھا کہ ’’اذان بج رہا ہے‘‘ شریفوں کے خوانِ نعمت سے استفادہ کرنے والے صحافی برسوں بے نظیر کے اس فقرے کی جگالی کرتے رہے۔ چوہدری شجاعت کی کتاب کو آئے کئی ماہ ہو گئے مگر ہم نے اب تک کیا اخبار میں یہ نہیں پڑھا کہ شریف خاندان نے قرآنِ مجید فرقانِ حمید کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ بھٹو جیسے سیکولر اور لبرل حکمران نے اتوار کی تعطیل ختم کرکے جمعے کی تعطیل بحال کی اور میاں نواز شریف جیسے ’’مذہب پرست‘‘ نے جمعے کی تعطیل ختم کرکے اتوار کی تعطیل کو بحال کر دیا۔ اس سے زیادہ دینی اور تہذیبی بے غیرتی یہ کہ میاں صاحب کے اسلام پسند صحافیوں کے ایک گروہ نے مہینوں تک اس اقدام کا دفاع کیا۔
مولانا مودودیؒ سمیت کئی بڑے علما نے یہ بات کہی ہے کہ بلاشبہ اسلام میں ہفتہ وار تعطیل کا کوئی تصور نہیں مگر جس طرح عیسائیوں کا متبرک دن اتواراور یہودیوں کا مقدس ہفتہ ہے اسی طرح مسلمانوں کا فضیلت رکھنے والا دن جمعہ ہے۔ چنانچہ اگر مسلم ریاستوں میں تعطیل ہونی چاہیے تو اسی دن کی ہونی چاہیے۔ مگر میاں نواز شریف اور مجیب الرحمن شامی جیسے لوگوں کے آگے مولانا مودودیؒ کیا بیچتے ہیں؟
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ بھٹو نے سیاسی مقاصد کے تحت اور اسلام پسندوں کو خوش کرنے کے لیے سہی مگر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا اور ختم نبوتؐ کے عقیدے کو بہر حال ریاستی سطح پر تحفظ مہیا کیا۔ مگر میاں نواز شریف نے دن دیہاڑے ختم نبوتؐ کے تصور پر حملہ کیا۔ اس سلسلے میں نواز لیگ کے وزیر قانون زاہد حامد کو قربانی کا بکرا بنایا گیا اور اب راجا ظفرالحق کی سربراہی میں قائم کی گئی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں انوشہ رحمن کا نام لیا ہے مگر نواز لیگ پر میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ میاں نواز شریف اور شریف خاندان کی مرضی کے بغیر نواز لیگ کا کوئی وزیر سانس بھی نہیں لے سکتا۔ کجا یہ کہ وہ ختم نبوتؐ کے تصور پر حملہ کرے۔ مگر اب تک میاں نواز شریف‘ شریف خاندان یا میاں نوازشریف کے صحافتی وکیلوں کو ختم نبوتؐ کے تصور پر حملے کے حوالے سے احساسِ جرم یا احساسِ گناہ کیا احساسِ شرمندگی میں بھی مبتلا نہیں دیکھا جاسکا۔ بھٹو خاندان یا پیپلزپارٹی سے اگر یہ جرم ہو گیا ہوتا تو شریفوں کا ٹولہ اور اس ٹولے کے صحافتی حواری بھٹو خاندان اور پیپلزپارٹی کو کچا ہی چبا جاتے اور کہتے کہ یہ لوگ تو ہیں ہی مذہب دشمن‘ سیکولر اور لبرل۔ لیکن میاں نواز شریف ختم نبوت کے تصور پر حملہ بھی کرا دیں تو انھیں کوئی مذہب دشمن اور توہین رسالت کرنے والا کہتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ میاں نواز شریف کے دورِ حکومت میں اقوام متحدہ نے زنا بالرضا کو پاکستان میں قانونی تحفظ مہیا کرنے کی سفارش کی اور حکومت کے متعلقہ ذمے داروں نے اقوام متحدہ کی سفارش پر ’’قابل غور‘‘ قرار دے کر واپس لوٹایا۔ اس سے قبل پیپلزپارٹی کے عہدِ حکومت میں اس سفارش کو رد کیا جا چکا تھا۔ زنا بالرضا کی سفارش کو قابل غور قراردینا اسلام کے قلب پر حمہ کرنے کے مترادف ہے مگر ہم نے کسی سیاسی رہنما‘ کسی عالم دین اور کسی قابل ذکر صحافی کو اس سلسلے میں میاں نواز شریف یا شریف خاندان پر تنقید کرتے نہیں دیکھا۔ اگر بھٹو خاندان یا پیپلزپارٹی سے یہ جرم سرزد ہو جاتا تو ہر طرف ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا۔
شریف خاندان مریم نواز کو مستقبل کی رہنما بنا کر ابھار رہا ہے‘ ہمیں اس بات پر رتی برابر بھی اعتراض نہیں مگر مریم نواز کی ہولناکی یہ ہے کہ انھوں نے اپنی ایک تقریر میں نوازشریف کو رسول اکرمؐ سے‘ خود کو حضرت فاطمہؓ سے اور اپنے حریفوں کو کفار مکہ سے تشبیہ دی اور فرمایا کہ جس طرح رسول اکرمؐ حق کی جدوجہد کر رہے تھے اسی طرح میاں نواز شریف بھی ’’حق‘‘ کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ذرا پاکستان کا کوئی سیاسی‘ کوئی صحافی یہ دعویٰ کرکے تو دکھائے پورا معاشرہ مذکورہ دعویٰ کرنے والے کو کچا چبا جائے گا۔ مگر شریفوں کے لیے ہر چیز جائز ہے۔ مریم نواز اگر اپنے والد کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور خود کو بی بی فاطمہؓ سے تشبیہ دے لیں تو نہ کوئی عالم دین بولتا ہے نہ کوئی سیاسی رہنما چیختا ہے‘ نہ کسی صحافی کی زبان ہلتی ہے۔ اور یہ تو کل ہی کی بات ہے شریف خاندان کے اقتدار کی علامت رانا ثناء اللہ نے سماء نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف کا استقبال حج سے بڑا کام ہے۔ حج اسلام کا رکن ہے۔ حج عبادت ہے اور عبادت صرف خدا کے لیے ہے۔ عبادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک کے لیے نہیں ہے‘ مگر رانا ثنا اللہ نے میاں نواز شریف کے استقبال کو اسلام کے ایک رکن اور عبادت سے بڑھا دیاہے۔ غلطی آدمی سے ہوتی ہے۔ رانا ثنا اللہ سے غلطی ہوگئی تو انھیں سرعام توبہ کرنی چاہیے تھی اور پوری قوم سے معافی مانگنی چاہیے تھی۔ اس لیے کہ ان کے بیان سے پوری قوم کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے تھے۔ رانا ثنا اللہ کیا شریف خاندان کو آگے بڑھنا چاہیے تھا اور رانا ثنا اللہ کی مذمت کرنی چاہیے تھی مگر جو خاندان خود کو ’’مقدس‘‘ سمجھتا ہو اور مریم نواز اپنے والد کو رسول اکرمؐ سے اور خود کو بی بی فاطمہؓ سے تشبیہ دیتی ہوں وہ خاندان اپنے بارے میں یا اپنے حواریوں کے بارے میں یہ کیسے فرض کرسکتا ہے کہ وہ مذہب دشمنی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو کچھ رانا ثنا اللہ نے کہا اگر وہی بات پیپلزپارٹی کا کوئی جیالا کر دیتا تو کیا پھر بھی معاشرے پرسناٹے کا راج ہوتا؟ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھٹو خاندان اور پیپلزپارٹی کا سیکولرازم اور لبرل ازم میاں نواز شریف‘ ان کے خاندان اور ان کی جماعت کی اسلام دشمنی کے سامنے بچوں کا کھیل ہے۔
میاں نواز شریف اور ان کے سرپرستوں نے برسوں تک اس تاثر کو بھی عام کیا کہ بھٹو خاندان ملک دشمن اور بھارت مرکز ہے۔ لیکن میاں نواز شریف اور ان کے خانان نے ملک دشمنی اور بھارت مرکز ہونے کی جو ناقابل تردید مثال قائم کی ہے اس کے آگے بھٹو خاندان کی مبینہ دشمنی بچوں کا کھیل ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے اپنی کتاب ’’اسپائی کروینکلز‘‘ کے باب 32 میں صاف لکھا ہے کہ شہباز شریف بھارتی پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگچھ کے ساتھ مل کر ’’گریٹر پنجاب‘‘ یا بھارت اور پاکستان کے پنجاب کو ایک کرنے کے لیے عملاً کام کر رہے تھے۔ یہ کسی عام شخص کی گواہی نہیں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ کی گواہی ہے۔

کیا بھٹو خانان گریٹر سندھ یا کوئی اور گریٹر کے پی کے یا گریٹر بلوچستان کے منصوبے پر کام کرنے کی جرأت کرسکتا ہے اور ا سکے بعد بھی پاکستان میں زندہ اور شاد و آباد رہ سکتا ہے؟ سب کو معلوم ہے کہ جنرل درانی نے ’’اپسائی کروینکلز‘‘ میں کیا کہا ہے مگر نہ ملک کے ریاستی ادارے شریف خاندان کی غداری پر سوال اٹھا رہے ہیں نہ سیاست دانوں اور صحافیوں کو اس امر سے دلچسپی ہے۔ شریفوں کی سیاسی طاقت اور سرمائے کا ’’جادو‘‘ ہر طرف موثر ہے۔ آخر ان حقائق سے آگاہ ہو کر بھی وہ کون سا سیاست ان اور وہ کون سی سیاسی جماعت ہوگی جو شریفوں کی اتحادی ہوگی؟ ان کے لیے نجرم گوشہ رکھنے والی ہوگی؟ آخر وہ کون سا جرنیل اور کون سا صحافی ہوگا جو شریفوں کا دفاع کرے گا اور انہیں معاشرے میں صاحبِ عزت بنانے کے لیے جدوجہد کرے گا؟ اور جو ایسا کرے گا کیا وہ بھول گیا ہوگا کہ مرنے کے بعد بھی ایک زندگی ہے‘ اس زندگی میں ہم ہوں گے اور خدا ہوگا اور ہمارے نامۂ اعمال۔ خدا کی رحمت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے سوا ہمارا کوئی سہارا نہ ہوگا کیا خدا کی رحمت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اسلام اور ختم نبوت کے تصور پر حملہ کرنے والوں کے لیے بھی ہوگی؟ کیا کوئی عالمِ دین‘ کوئی سیاست دان‘ کوئی جرنیل اور کوئی صحافی اس سوال کا جواب دے گا؟