اے پی سی کے فیصلے کے بعد صورتحال 1977ء جیسی ہوسکتی ہے

204

کراچی(تجزیہ : محمد انور ) مذہبی و سیاسی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء نے عام انتخابات 2018ء کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے حلف نہ اٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔اسلام آباد میں ایم ایم اے کے رہنما میاں اسلم کی رہائش گاہ میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کی صدارت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور ایم ایم اے کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے
کی۔اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ شہباز شریف کی میزبانی میں کانفرنس ہوئی جس میں ایم ایم اے،اسفندیار ولی، حاصل بزنجو، محمود خان اچکزئی، فاروق ستار، آفتاب خان شیرپاؤ، مصطفیٰ کمال نے شرکت کی اور مکمل اتفاق کے ساتھ 25 جولائی کے انتخابات کو مکمل طور پر مسترد کردیا ہے اور دوبارہ انتخابات کرانے کا مطالبہ کردیا۔اے پی سی میں کیے جانے والے اس فیصلے سے یقیناًتحریک انصاف پریشان ہو گی بلکہ امکان ہے کہ حکومت سازی کا عمل بھی معطل ہوجائے گا۔ایسی صورت میں ملک افراتفری کا شکار ہوسکتا ہے۔ اے پی سی شریک میزبان جماعت متحدہ مجلس عمل سمیت تمام ہی جماعتوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ۔ جبکہ ماہر قانون حشمت حبیب ایڈوکیٹ یہ واضح کرچکے ہیں کہ انتخابات کے انعقاد اور نتائج کا عمل آئین کے خلاف ہے۔جمعہ کو آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلوں کے بعد جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں شامل تمام جماعتوں کو ایسا ہی فیصلہ کرنا چاہیے تھا ۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ اگر انتخابات کے عمل سے نالاں جماعتوں کے کامیاب ارکان نے حلف نہیں اٹھایا تو ایوان ایوان کے حلف اٹھانے کی تقریب کے پہلے اجلاس میں گڑ بڑ ہوسکتی ہے۔ اور اجلاس کی کارروائی بھی معطل کی جاسکتی ہے۔جس کے بعد یہ احتجاج ایوان سے سڑکوں پر آجائے گا ۔ جس سے حالات 1977کی طرح کے ہوسکتے ہیں۔بیرسٹر حشمت حبیب نے بتایا ہے کہ جس طرح انتخابات کرائے گئے اس سے شبہ ہورہا تھا کہ ملک سے جمہوری عمل کو ختم کرنے کی سازش شروع ہوچکی ہے۔حشمت حبیب ایڈووکیٹ کا مؤقف اپنی جگہ لیکن اے پی سی شریک شہباز شریف کی طرف سے کیے گئے فیصلوں پرعمل کے لیے مہلت مانگنے پر ایسا تاثر ملا کہ جیسے مسلم لیگ نواز انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے الزام سے اتفاق کرنے کے باوجود سخت احتجاج نہیں کرنا چاہتی ۔دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے اے پی سی میں شرکت کے فیصلے کو واپس لینے کے باوجود ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کی اے پی سی میں شرکت اس بات کا اشارہ دے رہی تھی کہ ایم کیو ایم بہادرآباد اور پیر کالونی میں معاملات واضح نہیں ہے ۔یادرہے کہ ایم کیو ایم کے فاروق ستار انتخابات میں ہار چکے ہیں انہوں نے بھی انتخابات میں دھاندلی کے الزام پر اتفاق کیا ہے لیکن اچانک ہی اے پی سی میں شریک نہ ہونے والے ایم کیو ایم بہادرآباد کے رکن اور نو منتخب ممبر قومی اسمبلی امین الحق کا کہنا تھا کہ اے پی سی میں شرکت کے لیے چونکہ گورنر سندھ محمد زبیر نے فون پر دعوت دی تھی۔اس لیے وہ اے پی سی میں شرکت نہیں کررہے ۔خیال رہے کہ اے پی سی متحدہ مجلس عمل نے بلائی تھی ۔ایم ایم اے کی جانب سے بلائی گئی اے پی سی کے فیصلوں کو بہت اہمیت دی جارہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی طرح مسلم لیگ نواز بھی اے پی سی سے دور ہونا چاہ رہی ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ حلف نہ اٹھانے اور احتجاج کرنے کے فیصلے پر عمل کے لیے فوری کوئی جواب دینے کے بجائے مسلم لیگ نواز نے مہلت مانگ لی ہے