عمران خان کا قوم سے خطاب

450

عمران خان کی تقریر سننے کے بعد میرے ایک برخوردار نے فیس بک یر تبصرہ کیا کہ: ’’عمران خان کی تقریر بہت اچھی تھی، امید ہے کہ وہ اپنی تقریر میں کی گئی باتوں پر قائم رہیں گے‘‘۔ بات دل لگتی ہے اور یہ کہ جو بھی اس مقام پر ہو وہ کبھی ایسی بات منہ سے نکال ہی نہیں سکتا جس سے مایوسی جنم لے۔ وہ جو بھی بات کرے گا اس میں امید ہوگی، تمنائیں ہوں گی، عزم ہوگا اور قوم کے وقار اور حوصلوں کو بڑھانے کی باتیں ہوں گی تاکہ قوم کو اعتماد میں لیا جائے اور ان کی دل جوئی کی جائے۔
میرے سامنے عمران خان کی تقریر پورے متن کے ساتھ موجود ہے اور میں خود بھی متمنی ہوں کہ اللہ عمران کو ایسا ہی ثابت کرے جیسا کہ وہ قوم سے مخاطب ہو کر قوم کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔
عمران خان نے دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے کہا کہ: ’’الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کا بنایا ہوا نہیں تھا اور نگران حکومت بھی سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے بنائی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جن جن حلقوں کے بارے میں کہا جائے گا کہ یہاں دھاندلی ہوئی ہم آپ کے ساتھ تحقیقات کے لیے تیار ہیں‘‘۔
یہ ایسی حوصلہ افزا بات ہے جو اس سے قبل اتنی فراخ دلی کے ساتھ کسی بھی جیتنے والے رہنما نے پہلے کبھی نہیں کی لیکن ان کے علم میں یہ بات بہت اچھی طرح ہونی چاہیے کہ 2013 کے الیکشن میں بیلٹ پیپر کی پشت پر ووٹر کے انگوٹھوں کے نشانات ہوا کرتے تھے جو اس مرتبہ کسی بھی ووٹر سے نہیں لگوائے گئے۔ یہی وہ نشانات تھے جس کی بنیاد پر جو حلقے بھی کھولے گئے تھے ان پر انگوٹھوں کے نشانات ہی ان ووٹوں کے اصلی اور جعلی ہونے کا ثبوت بنے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی کے کہنے پر کوئی حلقہ کھول بھی لیا گیا تو اس بات کی کیا ضمانت ہوگی کہ وہ وہی ووٹ ہوں گے جو ووٹرز نے کاسٹ کیے تھے؟۔ ایک اور مشکل یہ بھی آن پڑی ہے کہ نئے قانون کے تحت ہر ووٹ کی گنتی کی فیس 100 روپے فی ووٹ رکھی گئی ہے جس کی وجہ سے چیلنج کیے گئے ووٹوں کے لیے کئی کئی لاکھ روپے درکار ہوں گے جس کو ادا کرنا ہر امیدوار کے بس کی بات نہ ہوگی۔
اپنے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ: ’’احتساب کا عمل مجھ سے شروع کیا جائے گا۔ قانون کی بالا دستی ہو گی۔ ملک کی اقتصادی حالت کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ اس وقت ایک بڑا چیلنج ہے اور اداروں کی غیر فعالیت کی وجہ سے ایسا ہے‘‘۔ ان کی اس بات میں بڑا وزن ہے اور یہ بات حقیقت سے قریب تر ہے۔ اب وہ اس سلسلے میں مزید کیا پلاننگ کرتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ بات تشنہ لب ہے کہ وہ کون کون سے ادارے ہیں جو اقتصادی بد حالی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ اگر اس کا ذکر بھی کھل کر، اشارتاً یا کنایتاً ہوجاتا تو شاید بات اور بھی خوبصورت ہوجاتی۔
عمران خان نے بہت ہی خوب صورت بات یہ کہی کہ وہ ’’پاکستان کو پیغمبر اسلام کے دور میں بنائی جانے والی مدینہ کی فلاحی ریاست کو مدینے کی ریاست جیسا بنانا چاہتے ہیں کیوں کہ وہ اس دور کے نظام سے متاثر ہوئے ہیں‘‘۔ ان کی یہ بات بہت ہی دل موہ لینے والی ہے۔ تمنا ہے کہ کاش ایسا ہی ہو لیکن ان کو یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندوستان اور پاکستان کے مسلمانوں کو کئی صدیوں سے یہی بات کہہ کر، اسلام کا حوالہ دے دے کر، اللہ اور اس کے رسول (ص) کے نام پر بہت دھوکا دیا گیا ہے۔ اب نوبت یہ آچکی ہے کہ لوگ ان باتوں کو خاطر ہی میں نہیں لاتے ہیں اور ایسی باتیں کرنے والوں سے نفرت کرنے لگے ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے اب علمائے کرام تک ’’اسلام‘‘ کو بھول بھال کر ’’جمہوریت‘‘ کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ آپ نے جو بات کہی ہے وہ پاکستان کا مقصود رہا ہے لیکن 70 برس میں ایک دن بھی مدینے والی ’’فلاحی‘‘ ریاست پاکستان میں نافذ نہیں ہوئی ہے۔ آپ بھی قوم کو خوش گمان کر رہے ہیں لیکن یاد رکھیں اگر ایسا کرنے کی جانب آپ نے بھی مؤثر اقدامات نہیں کیے تو پھر کسی پر بھی اعتبار کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا۔ اللہ آپ کو مدینے والے کہ واسطے سے ایسا ہی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پاکستان بنانے کا مقصد و مدعا پورا ہوسکے۔ آپ کی بات میں ایک ابہام ابھر رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ نے مدینے کی ’’فلاحی‘‘ ریاست کا تو عزم ظاہر کیا ہے لیکن ’’شرعی‘‘ یا ’’اسلامی‘‘ ریاست کا نہیں کہا۔ امید ہے اس ابہام کو بھی دور کیا جائے گا۔
عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کو پیغام دیا کہ: ’’وہ چاہتے ہیں کہ اس موقع پر ملک متحد ہو۔ ہمارا مقصد میری ذات سے بہت بڑا ہے۔ ہماری حکومت میں سیاسی انتقام نہیں لیا جائے گا‘‘۔ بہت اچھا پیغام ہے لیکن ماضی میں بشمول آپ کی ذات عملاً ایسا دیکھنے میں نہیں آیا۔ کسی بھی حکومت کو غیر فعال کرنے میں آپ سے زیادہ کوئی شریک نظر نہیں آیا خواہ اس کے لیے کوئی بھی جواز تراشا گیا ہو۔ حکومتوں کا استحکام بہت ضروری ہے جس کی اب آپ کو بہت ضرورت ہے لیکن شاید ایسا ممکن نہ ہو سکے اس لیے کہ پاکستان میں ٹانگیں کھینچنا پہلے ہی معمول تھا جس کو آپ نے نقطہ کمال تک پہنچایا۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا اس لیے ہر قدم پھونک پھونک کر ہی رکھنا ہوگا۔
خان صاحب نے اپنی متوقع حکومت کی پالیسیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ: ’’اب تک جو حکمران آئے انہوں نے خود پر پیسہ خرچ کیا۔ بڑے بڑے محلات پر اور غیر ملکی دوروں پر لیکن ان کے دور حکومت میں سادگی قائم کی جائے گی‘‘۔ سادگی کے بارے میں ان کا عزم و استقلال اپنی جگہ لیکن 2013 میں بھی انہوں نے ایسا ہی کہا تھا مگر جس کروفر کے ساتھ انہوں نے گزشتہ 5 برسوں میں اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے شاید عوام اس انداز کو کبھی نہ بھول سکیں۔ کسی بھی جلسے میں بنا ہیلی کوپٹر شریک نہ ہونا، لمبے لمبے پروٹوکول کے ساتھ گھومنا عادت کا حصہ رہا۔ سب سے بڑا مظاہرہ جو کیا گیا وہ عمرے کی ادائیگی پر کیا گیا جوچند لاکھ کے بجائے لاکھوں میں ادا ہوا۔ ممکن ہے کہ آپ عمر بن عبدالعزیز کی طرح حاکم بننے کے بعد وہ پر تعیش زندگی ترک کردیں لیکن اب تو یہ بات آپ کے آئندہ کے عمل سے ہی ثابت ہو تو ہو محض زبانی شاید قوم یقین نہ کر سکے۔
’’خان نے کہا کہ: ’انہیں شرم آئے گی کہ وہ وزیراعظم ہاؤس میں جا کر رہیں۔ ہماری حکومت فیصلہ کرے گی کہ وزیراعظم ہاؤس کا کیا کرنا ہے۔ تعلیمی ادارے کے طور پر استعمال کریں گے۔ گورنر ہاؤسز۔ کو بھی عوامی مقامات کے طور پر استعمال کریں گے‘‘۔ عوامی انہیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ 2013 میں بھی وہ ایسی باتیں کیا کرتے تھے لیکن وزیر اعلیٰ اور گورنر ہاؤس خیبر پختون خوا تا حال نہ تو یونیورسٹی بن سکے اور نہ ہی تفریحی پارک اس لیے اب جو بھی عوام دیکھنا پسند کریں گے وہ عملی قدم ہی دیکھنا پسند کریں گے۔
عمران خان نے خطاب میں کہا کہ ملک کا بڑا چیلینج ملک کی خارجہ پالیسی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات قائم کریں گے۔ انہوں نے سی پیک کا ذکر کیا اور کہا کہ چین سے سیکھنا چاہتے ہیں کہ کیسے انہوں نے 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا۔ ایران اور سعودی کے ساتھ اچھے تعلقات کے قیام کا ذکر کیا۔ سعودی عرب کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہیں گے کہ مشرق وسطیٰ میں مختلف ممالک کے درمیان اختلافات میں ثالث کا کردار ادا کریں۔ افغانستان کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ افغانستان کے لوگوں کو امن کی ضرورت ہے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ میز پر بیٹھ کر مسئلے کو حل کریں۔ یہی الزام تراشیاں چلتی رہیں تو مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ تعلقات بہتر کریں۔ آپ ایک قدم اٹھائیں ہم دو قدم اٹھائیں گے۔ خارجہ پالیسی سے متعلق ان کی کوئی بات بھی نئی نہیں لیکن افسوس یہی ہے کہ آج تک کسی نے ان باتوں کی جانب کوئی مثبت اور بھرپور قدم نہیں اٹھایا اب دیکھنا یہ ہے کہ خان صاحب اس معاملے میں کتنے پرعزم اور مخلص ہیں۔ خارجی معاملات اچھے ہوں گے تو ملک آگے کی جانب گامزن ہوسکے گا۔ احتساب کے سلسلے میں ان کا کہنا تھا کہ آج تک احتساب مخالفین کا ہوتا رہا ہے لیکن اب احتساب حکومت سے شروع کیا جائے گا۔ یہ ایک اچھی روایت کا آغاز ہوگا۔ اب وقت ہی اس کا فیصلہ کرے گا کہ ان کی کہی گئی باتیں خواب ہیں یا خوابوں کی تعبیر۔