ووٹ کی تاریخی عزت افزائی

512

میاں نواز شریف نے نااہلی اور معزولی کے بعد نعرہ لگایا تھا کہ ووٹ کو عزت دو۔ 25 جولائی کو ہم نے ووٹ اور ووٹر کی خوب عزت افزائی دیکھی۔ ظاہری بات ہے ووٹر کی عزت ووٹ کی عزت کے مترادف ہے اور ووٹر کے ساتھ وہ زبردست سلوک ہورہا تھا کہ ووٹر آئندہ انتخابات میں ووٹ ہی نہ ڈالنے پر غور کرنے لگے۔ ہم نے گلستان جوہر کے روفی لیک ڈرائیور کے رہائشی مسعود صاحب کو اِدھر اُدھر دوڑتے دیکھا۔ پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے کی کوشش کی تو عملے نے کہا کہ باہر کی پارٹی سے پرچی بنوا کر لاؤ۔ انہوں نے کہا کہ میں یہیں رہتا ہوں اسی جگہ پہلے بھی ووٹ ڈال چکا ہوں لیکن انہیں داخلے کی اجازت نہیں ملی، باہر بھائی لوگوں کے پاس گئے وہاں سے ٹکا سا جواب ملا۔ یہ یہاں کا کیس نہیں ہے۔ ہم نے ان سے کہا کہ ذرا بتائیں مسئلہ کیا ہے، کہا کہ پچھلے سال تک اسی جگہ ووٹ دیا تھا اب این اے 242 میں ڈال دیا گیا ہے اور کسی اسکول کا پتا بتایا جارہا ہے۔ ہم نے یونس بارائی کو فون کیا انہوں نے فوراً انہیں موسمیات چورنگی پہنچنے کا کہا اور بتایا کہ وہاں ہمارے کیمپ سے رابطہ کریں۔ لیکن معاملہ صرف ایک دو کا نہیں۔ پورے ملک میں ووٹر لسٹیں، حلقہ بندیاں، پولنگ کا عملہ، نتائج کی ترسیل، ووٹرز کے لیے سہولتیں یہ سب کام الیکشن کمیشن کو کرنے تھے۔ ووٹ کو عزت دینے کا سارا عمل جیسا ہم نے دیکھا اور قریبی لوگوں سے سنا وہ بیان کیے دیتے ہیں پھر آپ اپنے اپنے تجربات کی روشنی میں فیصلہ دیں کہ ووٹ کو کس قدر عزت ملی۔
سب سے پہلا مرحلہ تو ووٹر لسٹ میں نام آنے اور پولنگ اسٹیشن معلوم کرنا کا تھا اس کے لیے ووٹر کو پیسے دینے پڑ رہے تھے۔ 8300 پر میسج کے دو روپے کٹ رہے تھے اور جواب صبح کے پیغام کا دوپہر کو اور کسی کا اب تک نہیں ملا۔ دوسرا مرحلہ پولنگ اسٹیشن پہنچنے کا تھا۔ یہاں سے معزز ووٹر، قومی فریضہ انجام دینے والے کی رسوائی شروع۔ سخت تلاش (گویا دہشت گرد یہی ہے) موبائل رکھ دو، انداز ایسا کہ کوئی چور سے مخاطب ہو، پولیس کا سپاہی نہایت درشت انداز میں ہر ووٹر سے پوچھ رہا تھا موبائل تو نہیں ہے، اگر کسی کی جیب میں نکل آیا تو اسے غصے میں کہا جاتا ہے کہ جاؤ رکھ کر آؤ پتا نہیں کہاں سے آگیا۔ پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے کے بعد ووٹ کی مزید عزت افزائی یہ ہوئی کہ چھوٹے چھوٹے اسکولوں، کالجوں میں بنے والے پولنگ اسٹیشن میں چوں کہ معیار تعلیم اونچا ہوتا ہے اس لیے دوسری منزل پر بھی پولنگ بوتھ تھے۔ لیکن الیکشن کمیشن یہ بھول گیا کہ ووٹر 70 سال یا اس سے زیادہ کا بھی ہوسکتا ہے۔ عورت بھی ہوسکتی ہے اور بیمار بھی۔ پاکستان میں تو ہر چوتھا آدمی جوڑوں کے درد کا مریض ہے اس انتظام کے نتیجے میں ہر چوتھا ووٹر یا چوتھی ووٹر سوال کرتا ہوا پایا گیا کہ کیا اوپر جانا پڑے گا؟ انہیں شناختی کارڈ اور ووٹر لسٹ سے نہیں معلوم ہوا کہ ہم دوسری منزل پر نہیں چڑھ سکتے۔ پھر بھی قومی فریضہ ادا کرنے کے لیے ووٹ کی عزت کی خاطر یہ بزرگ بیمار لوگ دوسری منزل بھی چڑھ گئے لیکن دوسری منزل پر ایک نئی منزل سر کرنا تھی۔ 4 فٹ کی راہداری میں دو لائنیں لگی ہوئی تھیں الگ الگ پولنگ بوتھوں کی، اس راہداری میں سے بار بار ایک افسر گزر رہا تھا، فوجی بھائی بھی گشت پر تھے اور وہیں سے گزر کر خواتین کو باتھ روم بھی جانا تھا۔ ووٹ کی عزت کے ساتھ پولنگ کے عملے کی تربیت میں کمی نے بھی ووٹر کو بے عزت کروایا اور عملہ خود بھی فوجی سپاہی کے ہاتھوں بے عزت ہوا۔ ایک سپاہی نے سینئر استاد کو کہا کہ تجھے اور تیسرے عملے کو آخری وارننگ دے رہا ہوں ’’ہاتھ تیز چلاؤ‘‘ عملہ آہستگی سے ایک دوسرے سے بات کررہا تھا، ایک آواز آئی کہ روک دیں کیا؟ جواب ملا چلنے دو۔ کیوں پنگا لیتے ہو، ایک ووٹر نے اپنے دوست سے ازراہ مذاق اپنی پارٹی کے نشان کا تذکرہ با آواز بلند کردیا۔ اسے بھی جوان نے بلایا شناختی کارڈ دیکھا اور کہا کہ دو منٹ میں پولنگ اسٹیشن سے نکل جاؤ۔
ووٹ کو مزید عزت اس وقت ملی جب پی ای سی ایچ ایس کے ایک پولنگ اسٹیشن پر ایک ہی کمرے میں دو پولنگ بوتھ تھے اور عملے کی کمی کی وجہ سے پولنگ نہایت سست روی کا شکار ہوگئی اور طویل قطار لگ گئی اس پر ایک صاحب مشتعل ہوگئے اور آگے جا کر الیکشن کمیشن کے عملے کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور کہا کہ ہم ووٹ ڈالنے آئے ہیں خوار ہونے نہیں۔ تمہارے ہاتھ نہیں چل رہے، یہاں لوگ کھڑے کھڑے تھک گئے، پانی نہیں پنکھا نہیں، اتنے میں الیکشن کمیشن کا ایک افسر کمرے سے باہر آیا اور ڈانٹ کر کہا چپ کرکے لائن میں کھڑا ہوجا، بڑا آیا کہیں سے، اور زور سے کہا کہ اب شور کرے تو باہر نکال دینا سالے کو۔ پتا نہیں سچ مچ کا سالہ تھا یا غصے میں کہا گیا۔ بہر حال باقی معزز ووٹر بھی سہم گئے اور وہ صاحب بھی ساری چوکڑی بھول گئے کیوں کہ افسر کے ساتھ ایک باوردی بھی تھا۔ یہ ووٹر 25 جولائی کے وی آئی پی لوگ تھے لیکن تلاشی سے لے کر بدتمیزی تک اور ووٹر لسٹ میں نہ ہونے کے سبب دھکے کھانے تک تمام تر عزت افزائی کی گئی۔ یہ المیہ تو ہے کہ ٹیکس دینے والا دھوپ میں کھڑا ہو کر ٹیکس دیتا ہے، بجلی، گیس، فون وغیرہ کے بل بھی اب بینک کے اندر نہیں لیے جاتے اکثر مقامات پر باہر لائن ہوتی ہے اور کھڑکی کھلی ہوتی ہے۔ تا کہ بینک کا عملہ محفوظ رہے، ٹیکس گزار کی عزت افزائی کا یہی طریقہ ہے۔ یہ ٹیکس کہاں سے آگیا ’’جنرل‘‘ الیکشن کا آخری مرحلہ یہ تھا کہ صبح سے شفاف پولنگ کے دوران ڈالے گئے ووٹ گنے جائیں تو اس کے لیے پولنگ ایجنٹوں کو تکلیف سے بچانے کی خاطر پولنگ اسٹاف نے ووٹ خود ہی گن لیے۔ کسی کو نتیجہ دیا کسی کو نہیں دیا، گنتی ایسے کی گئی کہ پولنگ ایجنٹس کو اسٹیشن سے نکال دیا گیا، جو لوگ نکلنے پر تیار نہیں ہوئے ان کو چار بجے کے قریب یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ عملہ سارا سامان باندھ کر جارہا ہے اور ایجنٹس کو بھی کہا چلو نکلو یہاں سے۔ اور جن ایجنٹوں کے سامنے گنتی ہوئی ان کو بیلٹ پیپر نہیں دکھایا بس عملہ پارٹی کا نشان پکارتا رہا اور ایجنٹس نوٹ کرتے رہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی کہ دیر ہورہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ نتائج اگلے روز شام تک روک کر رکھے گئے۔ شاید ٹی وی سے لے کر نتائج جاری کیے گئے، ووٹ کو اور ووٹر کو اس سے زیادہ کیا عزت ملے گی۔