ماسٹر الطاف حسین کے نام پر لوگ ذاتی مفاد حاصل کررہے ہیں

245

حیدر آباد (نمائندہ جسارت) اپنے ہاتھوں سے پاکستان کا پہلا قومی پرچم تیار کرنے والے ماسٹر الطاف حسین مرحوم کے بیٹے ظہو الحسن نے کہا ہے کہ سربراہان ممالک اور ارباب اختیار سے ذاتی مالی فوائد ودیگر مراعات کے لیے کراچی کے مفاد پرست گروپ پاکستان کی تاریخ کا پہلا قومی پرچم ساز کا ٹریڈ مارک استعمال کرکے ذاتی مفاد حاصل کررہے ہیں، ان لوگوں سے ہوشیار رہا جائے۔ انہوں نے کہاکہ میرے والد ماسٹر الطاف حسین نے قائد اعظم کے حکم پر نو زائیدہ پاکستان کا پہلا پرچم خود اپنے ہاتھوں سے تیار کیا، جس پر انہیں لیاقت علی خان شہید نے پہلا قومی پرچم ساز ہونے کا اعزاز بھی بخشاتھا جس میرے والد کو آخری دم تک فخر تھا اور ہماری آئندہ نسلوں کو بھی فخر رہے گاتاہم میرے والد نے زندگی بھر پہلا قومی پرچم ساز ہونے کا دعویٰ تک نہیں کیا اور نہ ہی اس کی بنیاد پر کسی سربراہ سے کوئی مالی یا ذاتی مفاد حاصل کیا، وہ بہت سادہ اور اپنی شہرت کیخلاف تھے۔ انہوں نے کہاکہ قومی پرچم کی تیاری کے لمحات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کرنے کے لیے امریکی صحافی مس مارگریٹ بورک وہائٹ نے میرے والد ماسٹر الطاف حسین کی مسلم نیشنل گاڑد کی وری میں ملبوس پہلا قومی پرچم تیار کرتے ہوئے دہلی میں تصویر کھینچی تھی جو بعد ازاں میگزین لائن امریکا نے 18 اگست 1947ء کو شائع کی تھی۔ 1967ء میں میرے والد کے انتقال کے بعد میرے تایا افضال حسین نے غربت، کینسر کی بماری اور چار لڑکیوں کی وجہ سے لالچ میں آکر تمام تر حقائق وشواہد کو مسخ کرتے ہوئے چند عزیز و اقارب کی ملی بھگت سے اپنے نیو کراچی والے مکان میں ہاتھ کی سلائی مشین سے 1979ء میں جھنڈا تیار کرتے ہوئے تصویر بناکر شائع کروائیں اور سابق صدر ضیاء الحق وسابق گورنر حکیم محمد سعید سے فوائد اور نقد انعامات اور ضیا الحق سے صدارتی ایوارڈ حاصل کیے جس سے میری والدہ شکیلہ الطاف حسین نے ذرائع ابلاغ کو آگاہ کیا اور ایک اخبار کو انٹرویو میں خود تایا افضال حسین نے اعتراف کیا کہ پہلا قومی پرچم بناتے ہوئے امریکی اخبار میں 1947ء میں تصویر شائع ہوچکی ہے۔ ظہور الحسن نے کہاکہ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ اصل حائق سے نئی نسل کو آگاہ کیا جائے، ہمیں کسی قسم کا مالی فائدہ نہیں چاہیے، صرف جعل سازوں کو بے نقاب کرنا اور واپنے والد کی خدمات کا سرکاری طور پر اعتراف چاہیے ان کا نام تعلیمی نصاب اور تاریخ پاکستان میں درج کیا جائے۔