سرسید اور دین کی کاملیت کا ماتم

531

پوری امتِ مسلمہ کو اس بات پر بجا طور پر فخر ہے کہ ان کا دین کامل ترین دین ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ امت کا ’’خود ساختہ‘‘ خیال نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ہم نے آپؐ پر دین کی تکمیل کردی ہے۔ چوں کہ اسلام دینِ مکمل ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقانِ حمید میں اہلِ ایمان سے یہ بھی فرمایا ہے کہ تم پورے کے پورے دین میں داخل ہوجاؤ۔ یہی سبب ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپؐ کی سیرتِ طیبہؐ بھی کامل ترین سیرت ہے۔ لیکن سرسید کا مسئلہ یہ ہے کہ جس چیز پر پوری امت کو فخر ہے اُس پر سرسید کو شرمندگی لاحق ہے۔ پوری امت کہتی ہے ہمارا دین کامل ہے، سرسید کہتے ہیں کہ دین ناقص ہو تو اچھا ہے، اس لیے کہ ’’دین کی کاملیت‘‘ دم گھونٹ دینے والی ہے۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ زندگی کے جس دائرے میں جاؤ، دین سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ آخر زندگی کے کچھ گوشے تو ایسے ہوں جہاں انسان دین کی گرفت سے آزاد ہوکر زندگی گزار سکے۔ غالب کا مشہورِ زمانہ شعر ہے ؂
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
غالب کے اس شعر کو اصولاً اس طرح ہونا چاہیے تھا ؂
’’اپنی پستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی‘‘
تجزیہ کیا جائے تو غالب نے ہستی کا لفظ ضرورتاً استعمال کیا ہے، مگر وہ کہنا یہی چاہتے ہیں کہ اگر تمہاری طبیعت اور فطرت میں پستی ہے تو اس پستی کو ’’مانگے‘‘ کی آگہی سے ’’بلندی‘‘ میں ڈھالنے کی ضرورت نہیں۔ ظاہر ہے کہ ہماری روایت میں آگہی کا سب سے بڑا سرچشمہ مذہب ہی ہے۔ چناں چہ غالب کہہ رہے ہیں کہ کسی کا بھی احسان نہ ہو، دین کا بھی نہیں۔ بس اپنی ہستی پر بھروسا کرو۔ تمہاری ہستی میں اگر پستی ہے اور وہ آگہی کے بجائے تمہیں غفلت تک پہنچانے والی ہے تو غفلت ہی کو گلے لگاؤ، غفلت ہی کو Celebrate کرو، اس کا جشن مناؤ۔ یہاں غالب اور ان کے شعر کا محل یہ ہے کہ جس طرح غالب ہستی اور آگہی کے سلسلے میں دین کا انکار کیے بغیر دین سے بے نیاز کھڑے ہیں، اسی طرح سرسید دین کا انکار کیے بغیر دین کی کاملیت کے تصور سے بے نیاز کھڑے ہیں۔ آئیے دین کی کاملیت کے حوالے سے سرسید کی ’’وحشت‘‘ اور ’’دہشت‘‘ اور اُن کے ’’تکدّر‘‘ کے مطالعے کے لیے سرسید کے افکار سے رجوع کرتے ہیں۔ سرسید نے چار مختلف اقتباسات میں فرمایا:
اقتباس (1): ’’ہمارے ہاں تمام رسمیں اور عادتیں مذہب سے ایسی مل گئی ہیں کہ بغیر مذہبی بحث کیے ایک قدم بھی تہذیب و شائستگی کی راہ میں نہیں چل سکتے۔ جس بات کو کہو کہ چھوڑو، فوراً جواب ملے گا کہ مذہباً ثواب ہے۔ اور جس بات کو کہو کہ سیکھو، اسی وقت کوئی بولے گا کہ مذہباً منع ہے‘‘۔
اقتباس (2): ’’ان کا کوئی قول، کوئی فعل، کوئی یقین روحانی ہو یا جسمانی، دینی ہو یا دنیاوی، مذہب سے خالی نہیں۔ ان کے ہاں دنیاوی معاشرت اور مذہبی معاملات میں کچھ تفریق و جدائی نہیں ہے۔ کوئی امر حسنِ معاشرت یا تہذیب کا فرض کرلو جو محض دنیاوی ہو، اس پر ضرور بالضرور احکامِ عشرہ مذہبی میں سے کوئی نہ کوئی حکم جاری ہوگا یعنی فرض، واجب، سنت، مستحب، مباح، حلال، حرام، مکروہ، کفر، بدعت۔ پس مسلمانوں کی خراب حالتِ معاشرت کی ترقی بغیر اس کے کہ مذہبی بحث درمیان میں آئے، کیونکر ہوسکتی ہے! جس قوم کی حالت ایسی ہو کہ وہ سچ کو بھی، اگر ان کے مسلم عقیدے کے خلاف ہو، سچ کہنا کفر سمجھتے ہوں تو اس کی خراب حالتِ معاشرت کے درست کرنے کو کس طرح مذہبی بحث سے بچا جائے؟‘‘
اقتباس (3): پس ہم مجبور ہیں کہ تہذیب و شائستگی اور حسنِ معاشرت سکھانے میں ہم کو مذہبی بحث کرنی پڑتی ہے‘‘۔
اقتباس (4): مذہبی بحث کا ایک عجیب سلسلہ ہے کہ ایک چھوٹی سی بات پر بحث کرنے سے بڑے بڑے مسائل اور اصولِ مذہب بحث میں آجاتے ہیں، اور اس لیے لاچار کبھی ہم کو فقہ سے بحث کرنی پڑتی ہے اور کبھی اصولِ فقہ سے، اور کبھی حدیث سے بحث کرنی ہوتی ہے اور کبھی اصولِ حدیث سے، اور کبھی تفسیر سے بحث کرنی پڑتی ہے اور کبھی اصولِ تفسیر سے‘‘۔
(’’افکارِ سرسید‘‘۔ از:ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 164)
سرسید کے پہلے اقتباس کا تجزیہ کیا جائے تو سرسید کہہ رہے ہیں کہ مذہب کو اتنا ہمہ گیر، ہمہ جہت اور کامل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ رسموں اور عادات کا بھی احاطہ کیے ہوئے ہو۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کو ہمہ گیر، ہمہ جہت اور کامل نہیں بنایا، بلکہ یہ ’’کارنامہ‘‘ تو اللہ تعالیٰ ہی نے انجام دیا ہوا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ سرسید خدا پر تو اعتراض نہیں کرسکتے۔ کرتے، تو اس کا خمیازہ بھگتتے۔ چناں چہ انہوں نے ’’تاثر‘‘ یہ پیدا کیا ہے کہ خود مسلمانوں نے اسلام کو ایسا ’’بنالیا‘‘ کہ رسمیں اور عادات تک مذہب کے دائرے سے باہر نہیں۔ سرسید نے اس اقتباس میں یہ بھی فرمایا ہے کہ ہم مذہبی بحث کے بغیر ایک قدم بھی تہذیب و شائستگی کی راہ میں نہیں چل سکتے۔ سرسید کے اس فقرے میں یہ خیال مضمر ہے کہ مذہب ایک الگ چیز ہے اور تہذیب و شائستگی کوئی اور شے۔ حالاں کہ اسلام کے دائرے میں تہذیب و شائستگی مذہب ہی سے نمودار ہوتی ہیں۔ اس اقتباس میں سرسید کو یہ ’’تکلیف‘‘ لاحق ہے کہ مسلمانوں سے کہو اس چیز کو چھوڑ دو، تو کہتے ہیں کہ نہیں چھوڑ سکتے کیوں کہ اس کو اختیار کرنا ثواب ہے۔ مسلمانوں سے کہو کہ فلاں چیز اختیار کرلو، تو کہتے ہیں کہ نہیں کرسکتے کیوں کہ ہمارا مذہب اسے اختیار کرنے سے منع کرتا ہے۔ سرسید یہاں بھی یہ ’’تاثر‘‘ پیدا کررہے ہیں کہ ثواب اور گناہ کا چکر بھی مسلمانوں کا اپنا چلایا ہوا ہے۔ حالاں کہ مسلمان جس چیز کو ثواب کا باعث سمجھتے ہیں وہ بھی دین سے آئی ہوئی ہے، اور جس چیز کو وہ ممنوع سمجھتے ہیں اُسے اسلام ہی نے ممنوع قرار دیا ہوا ہے۔ سرسید اس صورتِ حال پر وحشت زدہ ہوکر چیختے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟ آخر مسلمان کا دین اتنا کامل، اتنا ہمہ گیر، اتنا جامع کیوں ہے۔ توبہ توبہ، مسلمانوں کو ایسے دین پر شرم نہیں آتی؟ سرسید یہ کہہ سکتے تو ضرور کہتے۔ مگر انہوں نے جو کچھ فرمایا ہے اُس کا مطلب اِس کے سوا کیا ہے؟
سرسید کے دوسرے اقتباس میں دین کی کاملیت سے متعلق سرسید کی ’’وحشت‘‘ اور گہری ہوگئی ہے۔ فرماتے ہیں کہ عادات اور رسمیں کیا مسلمانوں کی تو پوری معاشرت اور تہذیب ہی مذہب سے برآمد ہوئی ہے۔ سرسید نے اس خیال سے وحشت زدہ ہوکر مسلمانوں کے دین کے اساسی تصورات پر حملہ کردیا۔ فرمایا کہ مسلمانوں کے افعال یا تو فرض کے دائرے میں ہوتے ہیں یا واجب کے دائرے میں، سنت کے دائرے میں ہوتے ہیں یا مستحب کے دائرے میں، مباح کے دائرے میں ہوتے ہیں یا حلال کے دائرے میں، حرام کے دائرے میں ہوتے ہیں یا مکروہ کے دائرے میں،
کفر کے دائرے میں ہوتے ہیں یا بدعت کے دائرے میں۔ سرسید کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ اس طرح تو پوری زندگی ہی دین کے دائرے میں قید ہوگئی۔ اُن کا مشورہ ہے کہ مسلمانوں کے کچھ کام تو ایسے ہونے چاہئیں جو فرض، واجب، سنت، کفر، شرک، بدعت، حلال، حرام اور مکروہ کے دائرے سے باہر ہوں۔ اتفاق سے یہ تمام تصورات بھی دین ہی کی عطا ہیں، اور مسلمان اگر ان تصورات کو ترک کریں گے تو وہ سرسید تو بن جائیں گے مگر مسلمان نہیں رہیں گے۔
سرسید چوتھے اقتباس میں اس بات پر سخت ناراض ہیں کہ مذہبی بحث شروع ہوتی ہے تو پھر بات فقہ اور اصولِ فقہ تک پہنچتی ہے، حدیث اور اصولِ حدیث کو زیر بحث لانا پڑتا ہے، تفسیر اور اصولِ تفسیر سے گزرنا پڑتا ہے۔ غور کیا جائے تو سرسید نے اس اقتباس میں جو کچھ کہا ہے وہ اسلام پر فخر کرنے کا مقام ہے۔ کیوں کہ سرسید جو کچھ کہہ رہے ہیں اُس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی زندگی کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ بھی ایسا نہیں جس پر قرآن و حدیث اور فقہ کی پوری روایت کا سایہ نہ ہو۔ یعنی مسلمانوں کی ہر چیز ’’مستند‘‘ ہے۔ مسلمان کسی فلسفی، کسی مولوی، ملاّ یا عالم کی شخصی رائے پر نہیں چل رہے، بلکہ ان کی فکر کی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی بات کی جڑیں کتاب اللہ، حدیثِ مبارکہ اور ان سے برآمد ہونے والی فقہ کی روایت میں پیوست ہیں۔ مگر پوری امت جس بات پر فخر کرتی ہے سرسید اس بات پر ماتم کررہے ہیں۔ وہ کہے بغیر کہہ رہے ہیں کہ اے مسلمانو تمہاری زندگی کا کوئی مسئلہ اور کوئی معاملہ تو ایسا ہونا چاہیے جس کے حوالے سے قرآن و حدیث اور فقہ کے اصول زیر بحث نہ آئیں۔ بس ایک آدمی کو مسئلے کا جو حل سُجھائی دے، مسلمان اسے قبول کرلیں۔ سرسید غالب کی زبان میں ہر مسلمان سے کہہ رہے ہیں ؂
اپنی پستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
مگر حضورِ والا جن لوگوں کو ہر آن آگہی کا سمندر مہیا ہو وہ غفلت پر رال کیوں ٹپکائیں؟ جنہیں قرآن و حدیث اور فقہ کا خزانہ مہیا ہو وہ ذاتی خیال، شخصی تجربے اور انفرادی مشاہدے پر صدقے واری کیوں جائیں؟
اصل میں سرسید چاہتے تھے کہ جس طرح پروٹسٹنٹ انگریز انجیل کو اپنی عقل کے تابع کیے ہوئے ہیں اسی طرح معاذاللہ مسلمان بھی قرآن و حدیث اور ان سے پیدا ہونے والی فقہ کی روایت کو انفرادی عقل کے تابع کرلیں تاکہ مذہب کا معاملہ عقائد، عبادات اور اخلاقیات کے بعض اصولوں تک محدود رہے اور انسان کی تہذیبی و تمدنی اور سیاسی و علمی زندگی مذہب کی جکڑ بندی سے آزاد ہوجائے۔ سرسید عقل عقل تو بہت کرتے ہیں مگر اُن کی بیچاری عقل مغرب کی نقل سے ایک سینٹی میٹر بھی آگے نہیں بڑھ پاتی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سرسید کی ساری عقل اور سارا علم مغرب کی بھونڈی نقل سے پیدا ہوا ہے، اور اگر سرسید کو مغرب کا بندر کہیں تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دوسری قوم کے نقلچیوں نے کبھی اپنی کائنات اور کبھی اپنی دنیا خلق نہیں کی۔ ان کا اجالا مانگے کا اجالا ہوتا ہے، ان کی آرزوئیں مانگے کی آرزوئیں ہوتی ہیں، اور ان کا لباس واجدہ تبسم کی اصطلاح میں کسی کی اُترن کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود بھی سرسید ڈیڑھ سو سال سے ہماری تاریخ میں اتراتے ہوئے پھر رہے ہیں۔