کل جماعتی کانفرنس میں عدم اتفاق

296

کل جماعتی کانفرنس، جس میں کل جماعتیں شریک بھی نہیں تھیں، اس میں دوبارہ انتخابات کرانے کے لیے جس تحریک کا اعلان کیا گیا تھا وہ شروع ہونے سے پہلے ہی منتشر ہوگئی۔ یہ کل جماعتی کانفرنس گزشتہ جمعہ کو متحدہ مجلس عمل اور مسلم لیگ ن کی طرف سے مشترکہ طور پر بلائی گئی تھی لیکن جس فیصلے کا اعلان ہوا وہ مشترکہ ہی نہیں تھا۔ ایک بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی تو اس میں شریک ہی نہیں ہوئی اور ایم کیو ایم پاکستان چوں کہ مستقبل کی حکمران جماعت تحریک انصاف سے پینگیں بڑھانے کی فکر میں ہے اس لیے اس کی شرکت کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے کسی فیصلے کی تائید کرنے سے یہ کہہ کر گریز کیا کہ وہ اپنی پارٹی سے مشورے کے بعد طے کریں گے کہ کیا کرنا ہے۔ن لیگ کے سوا دیگر شریک جماعتوں نے طے کیا تھا کہ اسمبلیوں کا حلف ہی نہ اٹھایا جائے لیکن اگلے دن شہباز شریف نے یہ تجویز مسترد کردی اور احتجاجاً سیاہ پٹیاں باندھ کر حلف اٹھانے پر اکتفا کیا جو ظاہر ہے کہ بے معنیٰ ہے۔ جو ارکان منتخب ہوگئے ہیں وہ حلف اٹھائے بغیر نہیں رہیں گے کیوں کہ خود کو منتخب کروانے پر بڑا خرچہ آتا ہے۔ شہباز شریف اس حقیقت سے خوب واقف ہیں کہ اگر حلف نہ اٹھا کر اسمبلیوں کا بائیکاٹ کیا تو مزید کئی ارکان ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ چنانچہ ن لیگ نے فیصلہ کیا ہے کہ احتجاج قومی اسمبلی میں جا کر ہی کریں گے۔ ایسا احتجاج عمران بھی مہینوں کرتے رہے ہیں بلکہ انہوں نے تو عرصے تک قومی اسمبلی کا رخ ہی نہیں کیا کیوں کہ وہ بار بار کہتے رہے کہ اسمبلی میں چور اور لٹیرے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اب ان لٹیروں میں سے کئی عمران خان کی پناہ میں آ کر پاک، صاف ہوگئے ہیں ۔ تیسری بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی خوش ہے کہ سندھ پر اس کی حکومت برقرار ہے تو اسے احتجاج میں شریک ہونے کی کیا ضرورت اور احتجاج بھی ایسا جس میں ن لیگ بھی شامل ہو۔ البتہ پی پی کے صدر نشین بلاول زرداری نے اسی دن کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بڑے دبنگ انداز میں کہا ہے کہ ’’ مرکز میں ڈٹ کر اپوزیشن کروں گا اور دکھادوں گا کہ اپوزیشن کیسے کی جاتی ہے‘‘۔ بلاول نے دوسری جماعتوں کو بھی مشورہ دیا ہے کہ وہ سیاسی عمل سے باہر نہ نکلیں اور پارلیمنٹ ضرور جائیں۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ مرکز سے محاذ آرائی نہیں کی جائے گی۔ پیپلز پارٹی کو اس وقت تک ایسا ہی کرنا چاہیے جب تک آصف علی زرداری، فریال تالپور وغیرہ منی لانڈرنگ کیس سے بری نہ ہو جائیں۔ مرکز سے محاذ آرائی مزید خطرات کو دعوت دے سکتی ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی بلاول نے بھی انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ متنازع انتخابی عمل کو بے نقاب کریں گے لیکن پارلیمنٹ سے باہر نہیں رہ سکتے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے یہ مناسب فیصلہ ہے لیکن انتخابی نتائج مسترد کرنا کیا بالواسطہ طور پر نئی حکومت یا مرکز سے محاذ آرائی نہیں ہے ؟ کل جماعتی کانفرنس میں اسفند یار ولی نے تجویز پیش کی کہ شہباز شریف لاہور اور اسلام آباد کو بند کریں ہم کراچی اور پشاور بند کرسکتے ہیں۔ دھرنے دینے، لاک ڈاؤن اور شہر بند کرنے کا راستہ عمران خان کا دکھایا ہوا ہے اور انہوں نے ہی 126 دن کا ریکارڈ دھرنا اسلام آباد میں دیا تھا جس میں پارلیمنٹ اور پی ٹی وی اسٹیشن پر دھاوے بھی بولے گئے۔ پھر عمران کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحریک لبیک نے راولپنڈی، اسلام آباد کئی دن تک بند کیے رکھا۔ لیکن اسفند یار ولی کی تجویز پر عمل بہت خطرنا ک ہوگا اور کوئی بڑی ’’ تبدیلی‘‘ آسکتی ہے جس میں چند شہر ہی نہیں، پورا ملک بند ہوسکتا ہے۔ کل جماعتی کانفرنس کو ناکامی سے بچانے کے لیے مناسب تھا کہ پہلے سب جماعتوں سے مشورہ کرلیا جاتا کہ وہ کس حد تک جاسکتی ہیں ۔ مولانا فضل الرحمن نے تو بھٹو کے خلاف پی این اے جیسی تحریک چلانے کا اعلان بھی کردیا تھا۔ بلاشبہ یہ الیکشن نہیں سلیکشن تھا جس میں عوامی مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا اور انتخابی عملے کو یرغمال بنا لیا گیا۔ لیکن کوئی جارحانہ تحریک چلانے سے بہتر ہوگا کہ دھاندلیوں کے ثبوت جمع کر کے عام کیے جائیں اور جعلی مینڈیٹ کا پردہ فاش کیا جائے۔ اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ انتخابات دوبارہ ہوں۔ البتہ وسط مدتی انتخابات کا امکان ہے۔