پاکستان کی ترقی صرف اسلامی نظام ہی سے کیوں ممکن ہے

292

کل کے کالم کے حوالے سے ایک قاری نے دریافت کیا ہے کہ جس نظام کی بدولت چین، اسکنڈے نیوین ممالک اور مغرب ترقی کررہا ہے آخر ہمارے لیے اس نظام کو اپنانے میں کیا حرج ہے۔ ہم کیوں اس نظام سے استفادہ نہیں کرسکتے۔ اس کے جواب میں ایک بنیادی بات سمجھ لیجیے۔ دنیا میں بہت ساری قومیں ایسی ہیں جو اپنا مذہب، دین یا عقیدہ تو رکھتی ہیں لیکن اس مذہب میں کوئی تہذیب یعنی زندگی سے متعلق تصورات نہیں پائے جاتے جیسے عیسائیت یا بدھ مذہب۔ چوں کہ ان اقوام کا دین یہ تصورات نہیں دیتا لہٰذا یہ لوگ زندگی کے بارے میں انسانوں کے بنائے ہوئے کچھ مخصوص تصورات کو اختیار کرلیتے ہیں۔ یہی تصورات ان قوموں کی تہذیب بن جاتی ہے جس کا ان کے مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ لہٰذا مختلف اقوام مختلف مذاہب رکھنے کے باوجود ایک ہی تہذیب اختیار کرلیتی ہیں۔ جیسے جاپانی، ہندو، سکھ، فرانسیسی۔ اگرچہ ان اقوام کے دین اور مذہب مختلف ہیں لیکن چوں کہ ان کے دین سے کوئی تہذیب یا زندگی کے تصورات نہیں نکلتے اس لیے ان تمام قوموں نے اس عہد کی غالب تہذیب یعنی سرمایہ دارانہ تہذیب کو اختیار کرلیا ہے۔ سرمایہ دارانہ تہذیب زندگی سے متعلق جو تصورات دیتی ہے ان کے اختیار کرنے میں ان اقوام کے مذاہب رکاوٹ نہیں ہیں۔
اس حوالے سے مسلمانوں کا معاملہ مختلف ہے۔ مسلمانوں کا مذہب، دین یا عقیدہ ’’اسلام‘‘ ہے۔ اسلام ایک تہذیب یا زندگی سے متعلق تصورات کا حامل ہے جو انسانوں کی بنائی ہوئی نہیں بلکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی عطا اور الہام کردہ ہے۔ یعنی اسلامی تہذیب عقیدۂ اسلام سے ماخوذ ہے جو زندگی سے متعلق ہر مسئلے اور ہر شعبے میں اسلام سے رہنمائی حاصل کرتی ہے کیوں کہ اسلام زندگی کے ہر مسئلے اور ہر شعبے میں واضح اور متعین تصورات رکھتا ہے اور تاقیامت ہر عہد کے پیداکردہ مسائل حل کرنے کی اعلیٰ ترین صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسلام کے سوا کہیں اور سے زندگی سے متعلق تصورات اخذ کریں۔ دنیا میں کسی بھی تہذیب یا انسان کی طرف سے کوئی فکر یا زندگی کا تصور پیش کیا جاتا ہے۔ مسلمان اسے اسلام میں موجود فکر اور تصور کے مقابل رکھ کر جانچتے، تولتے اور پرکھتے ہیں اور جب اسے اسلامی تعلیمات اور تہذیب کے خلاف یا متصادم دیکھتے ہیں مسلمانوں کے لیے وہ قابل قبول نہیں رہتا۔ مسلمان اس فکر، خیال اور آئیڈیالوجی سے متصادم ہوجاتے ہیں خواہ وہ سوشلزم ہو، سرمایہ دارانہ نظام ہو یا زندگی سے متعلق کوئی اور نظام۔
مغرب نے اس وقت ترقی کی جب اس نے سرمایہ دارانہ نظام کو اختیار کیا جو سیکولرازم کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ دین سے دنیاوی امور کی علیحدگی یعنی سیکو لرازم ہی مغربی قوموں کی زندگی کا بنیادی تصور بھی ہے۔ سوویت یونین اس وقت سوویت یونین بنا جب اس نے کمیونزم کے نظام کو اختیار کیا جس کا بنیادی تصور ہی یہ ہے کہ کائنات کا کوئی خالق نہیں اور نہ ہی کائنات کو کسی خالق کی ضرورت ہے۔ یہ فکر ہی سوویت عوام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ رسول کریمؐ نے مدینے کی ریاست کی بنیاد اسلام پر استوار کی اور زندگی کے ہر پہلو میں اسلام ہی کو بطور نظام نافذ کیا۔ اس نظام کی بدولت مسلمان چند ہی دھائیوں میں قیصر وکسریٰ کو شکست دے کر سپر پاور بن گئے۔
کوئی قوم اس وقت ترقی کرسکتی ہے جب اس پر ایسا نظام نافذ ہو جس میں اس قوم کے معاشی معاشرتی اور حکومتی سمیت تمام امور کو منظم کرنے کی صلاحیت ہو اور وہ نظام ایسی جامع بنیاد پر کھڑا ہو جو زندگی سے متعلق اس قوم کا بنیادی تصور بھی ہو۔ پاکستان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہاں بسنے والے مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ اسلام ہے اور یہ محض عقیدہ نہیں ایک اعلیٰ ترین نظام بھی ہے جس میں قیامت تک کے لیے زندگی کے تمام مسائل کا حل بھی موجود ہے مگر پاکستان میں اسلام کے بجائے سرمایہ دارانہ جمہوری نظام میں زندگی کے تمام مسائل کا حل تلاش کیا جارہا ہے۔ استعمار کی یہی شکل یہاں نافذ ہے۔ جو اپنی بنیاد اور تفصیلات دونوں میں اسلام سے متصادم ہے۔ پاکستان اسی وقت ترقی کرسکتا ہے جب یہاں اسلام نافذ ہو جو یہاں کے مسلمانوں کا عقیدہ بھی ہے اور زندگی کا ایک ایسا نظام بھی جو ان کی زندگی کے تمام مسائل بھی حل کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اسی وقت تک ترقی کرتے رہے جب ان پر اسلام کی شکل میں ایک ایسا نظام نافذ رہا جو ان کا عقیدہ بھی تھا۔
ہم نے آمریت کے تجربات کرکے دیکھ لیے اور جمہوریت کے بھی۔ ایوب خان کی آمریت بھی ہمیں راس نہیں آئی اور یحییٰ خان اور جنرل ضیا الحق اور پرویز مشرف کی بھی۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوریت ہو یا نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کی۔ نہ ہمیں آمریت راس آئی اور نہ جمہوریت۔ اب عمران خان کی جمہوری حکومت قائم ہونے جارہی ہے۔ جلد یا بدیر اس کا انجام بھی ماضی کے تجربات سے مختلف نہ ہوگا۔ آمریت ہو یا جمہوریت، چہرے بدل رہے ہیں لیکن نظام ایک ہی ہے سرمایہ دارانہ نظام جو پاکستان کے عوام کے عقیدے سے بالکل مختلف بلکہ متصادم ہے۔ سو نتیجہ سامنے ہے حکومتیں بن رہی ہیں بگڑ رہی ہیں لیکن ہم ترقی سے کوسوں دور بلکہ روز بروز انحطاط کی طرف جارہے ہیں۔ پاکستان اسی وقت ترقی کرسکتا ہے جب یہاں ایسا نظام نافذ ہو جو یہاں کے لوگوں کے بنیادی عقیدے پر مبنی ہو اور وہ صرف اور صرف اسلام ہے۔