مجلس عمل کے پارلیمنٹ میں جانے کے فیصلے سے جمہوریت کو فائدہ ہوگا 

311

کراچی (تجزیہ: محمد انور) یقیناًیہ خبر قوم کے لیے اطمینان کا باعث ہے کہ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ مجلس عمل کے درمیان قومی اسمبلی میں گرینڈ اپوزیشن الائنس کے قیام پر اتفاق ہوگیا اور مولانا فضل الرحمن نے ایم ایم اے کے پارلیمنٹ میں جانے پر رضا مندی ظاہر کردی ہے۔ یادرہے کہ ایم ایم اے کی جانب سے 27 جولائی کو بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایم ایم اے کے منتخب ارکان قومی اسمبلی احتجاجاً حلف نہیں اٹھائیں گے جبکہ دوبارہ انتخابات کے لیے مہم چلائی جائے گی۔ اگر ایم ایم اے اپنے فیصلے پر نظرثانی نہیں کرتی تو یقیناًنو منتخب حکومت کے لیے یہ ایک اضافی
پریشانی کا باعث ہوتی۔ لیکن ایم ایم نے پیر کو اسلام آباد میں اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے گھر ن لیگ، پیپلزپارٹی، ایم ایم اے اور اے این پی کے رہنماؤں کے مشترکہ اجلاس جس میں شہباز شریف، ایاز صادق، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، مشاہد حسین سید، عبدالقادر بلوچ، شاہد خاقان عباسی اور دیگر ن لیگی رہنما بھی موجود تھے میں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرکے ” بڑے دل ” کا اظہار کیا۔ اجلاس میں مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھاکہ الیکشن کمیشن کو یہ بات نوٹ کرلینی چاہیے کہ آج تک اس طرح متفقہ طور پر انتخابات کی دھاندلی کو رد نہیں کیا جتنا آج سب متفق ہیں۔انہوں نے کہا کہ سب نے اتفاق رائے سے تسلیم کیا کہ دھاندلی ہوئی، ان اداروں کو شرم آنی چاہیے جنہوں نے عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا اور ملک میں اضطراب پیدا کیا، ہر ووٹر سرپکڑ کو سوچ رہا ہے کہ میں نے کچھ فیصلہ کیا اور منظر پر کچھ فیصلہ آیا۔ دھاندلی زدہ انتخابات کو تسلیم نہ کرنے کے باوجود ایم ایم اے اور دیگر جماعتوں کی طرف سے اسمبلیوں میں جانے کا فیصلہ یقیناًمثبت اور مثالی ہے اس سے نہ صرف جمہوریت کے تسلسل کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ مستقبل میں بھی ایسے حالات کو جمہوری طریقوں سے نمٹنے کا راستہ ملے گا۔ایم ایم اے اور دیگر جماعتوں کے اس فیصلے پر ملک کے عام ووٹرز کی جانب سے بھی پذیرائی کیے جانے کا امکان ہے۔ یہ فیصلہ ملک کی بڑی جماعت بن کر سامنے آنے والی پاکستان تحریک انصاف کی ممکنہ حکمرانی کے لیے بھی سنگ میل ثابت ہوگا۔ جبکہ قوم کو اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا سبق ملے گا۔ اس طرح کے فیصلوں سے جاری جمہوریت پر آنچ آنے کے امکانات زائل اور آمریت کے راستے مسدود ہونگے جبکہ گرینڈ اپوزیشن الائنس کی تجویز پر عمل سے بھی جمہوری اور جمہور کو فائدے ہونگے ۔