گورنر سندھ کے بیان کا نوٹس لیا جائے

382

اب تک تو بات سیاسی جماعتوں کے الزامات اور سماجی میڈیا فیس بک انٹرنیٹ واٹس ایپ کی تھی لیکن اب وفاق کے نمائندے گورنر سندھ نے قومی انتخابات کے بارے میں نہایت سنگین الزامات عاید کیے ہیں۔ گورنر سندھ محمد زبیر نے انتخابات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ ایک جماعت کو جتوانے کے لیے انتخابات کروائے گئے۔ فوج اور عوام کو لڑوانے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے فوج کے بارے میں بھی سخت انداز اختیار کیا اور کہاکہ ووٹ کی گنتی فوج کا کام نہیں تھا۔ پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر کون ہوگا یہ فیصلہ کرنا فوج کا کام نہیں تھا اور نہ ہی نتائج کا اعلان ڈکٹیٹ کرنا۔ گورنر نے سوال کیا کہ آر ٹی ایس بیٹھ گیا تھا یا بٹھایا گیا تھا۔ گورنر سندھ پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر کے بھائی ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ میں گورنر کا عہدہ چھوڑ رہا ہوں سیاست نہیں۔ لیکن ان کی سیاست کا آغاز اس بیانیے سے ہوا ہے جس نے میاں نواز شریف کو جیل بھجوادیا ہے۔ پاکستان میں فوج کے بارے میں ایسے بیانیے کے لیے مخصوص ثبوت درکار ہوتے ہیں۔ فوج جیسا ادارہ پہلے ہی مختلف حوالوں سے سیاست میں مداخلت کے الزام کا سامنا کررہا ہے لیکن میاں نواز شریف کے بعد گورنر سندھ زبیر عمر دوسری بڑی شخصیت ہیں جنہوں نے براہ راست فوج پر الزامات عاید کیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فوج سے پہلے الیکشن کمیشن کو ان الزامات کا جواب دینا چاہیے کیونکہ آر ٹی ایس کی ناکامی انتخابی نتائج میں تاخیر، پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکالنا، گنتی کے عمل میں کسی بھی قسم کی مداخلت، وغیرہ یہ سب الیکشن کمیشن کے دائرۂ اختیار میں آتی ہیں۔ اگر فوج سمیت کسی قوت نے الیکشن کمیشن کو فارم 45 دینے سے روکاتھا تو الیکشن کمیشن اس کی وضاحت کرے، اگر اسے کسی ادارے نے نتائج میں تاخیر یا پولنگ ایجنٹوں کو نکالنے پر مجبور کیا تھا یا ایسی کوئی ہدایت دی تھی تو وہ اس کی دوٹوک وضاحت کرے، کیونکہ جب تک الیکشن کمیشن یہ واضح نہیں کرتا کہ معاملات کیا تھے اور کس نے مداخلت کی تھی اس وقت تک کوئی بات واضح نہیں ہوسکتی نہ ہی اس وقت تک فوج کے بارے میں کسی الزام میں وزن ہوگا، تاہم گورنر کی سطح کے فرد کی جانب سے الزام کی نوعیت بڑی سنگین ہے۔ اس کی وضاحت ضروری ہے۔ گورنر نے الیکشن کمیشن کو ویڈیوز کا نوٹس لینے کا بھی مشورہ دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو ان ویڈیوز کا نوٹس بھی لینا چاہیے۔ اگرچہ گورنر زبیر نے علامتی طور پر یا نمونے کے طور پر صرف دو حلقے کھولنے کی بات کی تھی لیکن اب الیکشن کمیشن نے 27 حلقوں میں دوبارہ گنتی کا حکم دے دیا ہے۔ یہ ان کے مطالبے سے آگے کی بات ہے۔ البتہ الیکشن کمیشن نے بعض ایسے حلقوں کے بارے میں خاموشی اختیار کرلی ہے جن پر بہت زیادہ اعتراضات ہیں۔ بہر حال پاک فوج کے حوالے سے الزامات اور نعرے بازی حد سے بڑھ گئی ہے۔ اس وقت کی وضاحت فوج کے ترجمان کی جانب سے بھی آنی چاہیے۔ ویسے تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ترجمان ٹویٹ اور پریس کانفرنس تک کردیتے ہیں ان باتوں کو ایک دفعہ دو ٹوک انداز میں ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرایسی مداخلت کاکوئی ثبوت سامنے آجائے تو ہمیں یقین ہے کہ فوج کی جانب سے اپنے عملے کے خلاف بھی مناسب ایکشن لیا جائے گا۔ لیکن حالات تیزی سے خرابی کی طرف جارہے ہیں۔سرپرستی اور مدد سے بڑھ کر براہ راست ووٹ ڈالنے، بیلٹ پیپر پر ٹھپا لگانے تک کے الزامات اے این پی کی طرف سے آگئے ہیں اور غیر ملکی نشریاتی ادارے بھی ایسی خبروں کو زیادہ اجاگر کررہے ہیں۔ ہماری نظر میں الیکشن کمیشن کو آگے بڑھ کر انتخابی بے ضابطگیوں کو دور کرنا چاہیے۔ خواہ اس میں کسی لاڈلے کا نقصان ہوجائے یا کسی ایسی پارٹی کو فائدہ ہوجائے جسے الیکشن کمیشن یا اسٹیبلشمنٹ آگے نہیں آنے دینا چاہتے تھے۔ اب تو سوال پاکستان ااور اہم ترین قومی ادارے کا آگیا ہے اس پر تمام اہم اداروں کو مل کر سوچنا ہوگا۔ اب الیکشن کمیشن نے ایک اور اعلان کیا ہے کہ وہ ملک بھر کے حلقوں سے فارم 45 اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرے گا۔ لیکن اس اعلان سے ایک اور بے ضابطگی کا شبہ سامنے آگیا ہے۔ جو خبر جاری کی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر سے فارم 45 الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے میں چار سے پانچ دن درکار ہوں گے۔ مزید یہ کہ اگر الیکشن کمیشن کے پاس ملک بھر سے فارم 45 پر نتائج آچکے تھے تو اب ملک بھر سے فارم 45 کا ریکارڈ طلب کرنے کی ہدایت کیوں جاری کی ہے۔ الیکشن کمیشن کے ترجمان نے ٹی وی پروگرام میں یہ کہاکہ ہمارے پاس فارم 45 کا ریکارڈ موجود ہے لیکن دوسری طرف الیکشن کمیشن صوبائی الیکشن کمشنرز کو فارم 45 فوراً بھیجنے کی ہدایت کررہاہے، یہ بہر حال ایک کھلا تضاد ہے اس کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ ان تمام الزامات کی وضاحت کے بعد امید ہے کہ بہت سے شکوک و شبہات کے بادل بھی چھٹ جائیں گے اور اہم قومی اداروں سے جو شکایات ہیں ان کا بھی ازالہ ہوسکے گا۔