میں کیسے اعتبار انقلاب آسماں کرلوں

395

لیجیے صاحب تمام تر خدشات اور شکوک و شبہات کے باوجود 25 جولائی کو عوام پولنگ اسٹیشنوں تک جانے اور اپنے نمائندوں کا چناؤ کرنے میں کامیاب رہے، اس طرح پاکستان میں گیارہویں عام انتخابات کا مرحلہ بہت سی بے ضابطگیوں کے باوجود بخیر و خوبی مکمل ہوگیا۔ گزشتہ سال جب پاناما کیس میں میاں نواز شریف نااہل ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ کے منصب سے معزول ہوئے تھے تو کہا جارہا تھا کہ وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت برقرار نہ رہ سکے گی اور نواز شریف کے جانے سے اس حکومت کا دھڑن تختہ ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ قیاس آرائی بھی گردش کررہی تھی کہ خفیہ بالادست قوتیں ملک میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت لانے کے لیے کوشاں ہیں جو دو سال تک رہے گی، اس دوران بے لاگ اور بے رحم احتساب ہوگا اور کرپشن کا سارا گند صاف کرنے کے بعد انتخابات کے ذریعے حکومت کلین لوگوں کے سپرد کی جائے گی۔ اس سلسلے میں تجزیہ کار اور کالم نگار خوب قیاس کے گھوڑے دوڑا رہے تھے اور دلائل کے انبار لگانے میں مصروف تھے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ نواز شریف گئے تو ان کی جگہ (ن) لیگ نے قومی اسمبلی میں شاہد خاقان عباسی کو عبوری وزیراعظم منتخب کرلیا جو پانچ سالہ مینڈیٹ مکمل ہونے تک حکومت چلاتے رہے۔ یہ دراصل نواز شریف ہی کی حکومت تھی جو پردے کے پیچھے بیٹھ کر ڈور ہلا رہے تھے اور شاہد خاقان عباسی ایک کٹھ پتلی کی طرح ان کے اشاروں پر حرکت کررہے تھے۔ احتساب عدالت میں نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف لندن فلیٹس کی ملکیت کے خلاف ریفرنس کی سماعت ہورہی تھی تو تینوں حضرات اسلام آباد میں اپنی حکومت کے طفیل شاہانہ انداز میں پیشیاں بھگت رہے تھے، انہیں پچاس پچاس گاڑیوں کا پروٹوکول دیا جاتا، احتساب عدالت میں حاضر ہوتے تو جج کے سوالوں کے جواب دینے کے بجائے خاموشی اختیار کرلیتے، البتہ ان کا وکیل دلائل کے توتا مینا اُڑاتا رہتا۔ آخر آئین کے مطابق عبوری حکومت کی مدت بھی ختم ہوگئی اور وفاق اور صوبوں میں نگراں حکومتیں قائم ہوگئیں جو تین ماہ کے اندر انتخابات کرانے اور اقتدار منتخب نمائندوں کو سپرد کرنے کی پابند تھیں۔
یہاں تک تو پہنچے، یہاں تک تو آئے
لیکن قیاس آرائیوں کا سلسلہ پھر بھی نہ رُکا۔ کہا گیا کہ یہی نگراں حکومتیں طول کھینچ سکتی ہیں، کچھ سیاستدانوں نے انتخابات ملتوی کرنے کا بھی مطالبہ کردیا۔ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات عام انتخابات کے لیے سازگار نہیں ہیں اس لیے انہیں ایک دو سال کے لیے ملتوی کیا جائے، وہ اپنی درخواست لے کر عدالت میں بھی گئے تھے لیکن ان کی پزیرائی نہ ہوئی اور عدالت نے ان کا موقف تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس دوران الیکشن کمیشن نے انتخابات کے انعقاد کی مجوزہ تاریخیں بھی صدر کو منظوری کے لیے بھیج دیں اور صدر نے ان میں سے 25 جولائی پر اُنگلی رکھ دی۔ اس طرح 25 جولائی عام انتخابات کا دن قرار پاگیا۔ پھر یوں ہوا کہ ملک میں انتخابی سرگرمیاں شروع ہی ہوئی تھیں کہ ایون فیلڈ ریفرنسز میں احتساب عدالت کا فیصلہ بھی سامنے آگیا جس میں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو بالترتیب دس سال اور سات سال قید بامشقت کے علاوہ جائداد کی ضبطی اور جرمانے کی سزا دی گئی تھی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو اعانتِ جرم کے الزام میں ایک سال قید سخت کی سزا کا مستحق گردانا گیا تھا۔ میاں نواز شریف اپنی صاحبزادی کے ہمراہ لندن میں اپنی بیمار اہلیہ کی عیادت میں مصروف تھے، وہ بیرون ملک یہ فیصلہ سننے کے بعد اپنا اپیل کا حق استعمال کرنے کے لیے ایک ہفتے کے اندر پاکستان پہنچ گئے اور قانون کے مطابق انہیں اپنی بیٹی کے ہمراہ جیل کے سپرد کردیا گیا، جب کہ کیپٹن (ر) صفدر پہلے ہی خود کو قانون کے حوالے کرچکے تھے۔ لیکن اس واقعے سے پاکستانی سیاست میں کوئی بھونچال آیا نہ احتجاج کی کوئی لہر اُٹھی اور نہ انتخابی مہم پر کوئی اثر پڑا، البتہ انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کے اندوہناک واقعات نے انتخابات کے انعقاد کو ایک بار پھر مشکوک بنادیا تھا اور یہ کہا جانے لگا تھا کہ دہشت گردی کی یہ لہر جاری رہی تو انتخابات کا مقررہ تاریخ کو ہونا دشوار ہوجائے گا۔ قوم لاشیں اُٹھائے گی یا پولنگ اسٹیشنوں پر حاضری دے گی؟ لیکن خدا کا شکر ہے کہ دہشت گردی کی لہر دم توڑ گئی اور انتخابی سرگرمیاں جاری رہیں، یہاں تک کہ انتخابات کا وقت موعود آن پہنچا اب کی دفعہ موسم نے آنکھیں دکھائیں، پولنگ سے ایک دن قبل پورے ملک میں شدید بارش ہوئی، متعدد علاقے زیر آب آگئے، کئی انسانی جانیں بارش کی نذر ہوگئیں، محکمہ موسمیات نے اگلے دن بھی بارش کی پیش گوئی کردی۔ چناں چہ ’’جسارت‘‘ نے تو اپنی سپر لیڈ میں انتخابات کے ڈوبنے کا خدشہ ظاہر کردیا لیکن قدرت کو رحم آیا اس نے بارش کی طنابیں کھینچ لیں اور بادلوں کو غیر متحرک ہونے کا حکم دے دیا۔
25 جولائی کا دن طلوع ہوا تو مطلع ابر آلود ہونے کے باوجود موسم خوشگوار تھا اور سورج بادلوں کی اوٹ سے جھانک کر اہل پاکستان کی بے چینی کا نظارہ کررہا تھا جو صبح ہوتے ہی اپنا ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں کے باہر قطار باندھے کھڑے تھے۔ انہوں نے پورے ملک میں اپنا یہ حق استعمال کیا، مردوں کے علاوہ عورتوں نے بھی کثیر تعداد میں ووٹ ڈالے اور اپنے پسندیدہ امیدواروں کے حق میں رائے دی۔
اب یہ بات متنازع ہوگئی ہے کہ انتخابات کا جو نتیجہ آیا وہ ووٹروں کی رائے کے عین مطابق تھا؟ الیکشن کی شفافیت پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ سلیکشن تو پہلے ہی ہوچکا تھا دکھاوے کے لیے الیکشن کا عمل بعد میں مکمل کیا گیا۔ لیکن اعتراض کرنے والی سب جماعتیں کسی ایک بات پر متفق نہیں ہیں، وقت کا پہیہ انہیں روندتا ہوا آگے نکل گیا ہے اب وہ واپس نہیں آسکتا، مسلم لیگ (ن) ان انتخابات میں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے اس سے اس کا پینتیس سالہ اقتدار چھن گیا ہے، عوام نے اس کے بیانیے کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ میاں نواز شریف کو توقع تھی کہ عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے جیل کی سلاختیں توڑ دیں گے اور وہ وکٹری کا نشان بناتے ہوئے باہر نکل آئیں گے، لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ انتخابی نتائج پر شک و شبہات ظاہر کرنے کے باوجود (ن) لیگ کوئی احتجاجی تحریک چلانے سے گریزاں ہے، شہباز شریف نے کہا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے، پیپلز پارٹی کو انتخابات میں توقع سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ہے اور وہ اس کامیابی کو کسی صورت بھی ضائع نہیں کرنا چاہتی۔ رہی متحدہ مجلس عمل تو اسے یقیناًخسارہ ہوا ہے اس کے نہایت مضبوط امیدوار ہرادیے گئے ہیں، یہ پہلا موقع ہے کہ مولانا فضل الرحمن بھی پارلیمنٹ سے باہر ہیں لیکن وہ تنہا کوئی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اس لیے انتخابات جیسے بھی ہیں انہیں قبول کرنا پڑے گا۔ پوری دنیا نے بھی انہیں قبول کرلیا ہے اور آنے والی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ عمران خان نے متوقع وزیراعظم کی حیثیت سے ٹیلی ویژن پر جو تقریر کی ہے اس نے قوم کو مایوس کرنے کے بجائے اس میں اُمید کی لو روشن کردی ہے وہ رسالت مآبؐ کے دور کی ریاست مدینہ کی طرز پر ملک کا نظام چلانا چاہتے ہیں۔ شاہانہ کلچر کو ختم کرکے سادگی اختیار کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے وزیراعظم ہاؤس میں رہنے کے بجائے منسٹرز کالونی میں رہائش کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
غیر ملکی قرضوں کے بارے میں بھی وہ بہت فکر مند ہیں، ان کی ساری باتیں حوصلہ افزا ہیں، وہ پاکستان کی حالت بدلنا چاہتے ہیں تو انہیں موقع ملنا چاہیے۔ اپوزیشن جماعتیں اور بحیثیت مجموعی پوری قوم کڑے محتسب کی حیثیت سے ان کی نگرانی کرے اور انہیں ان کے موقف سے سرِ مو ہٹنے نہ دے۔ ورنہ یہ کہنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔میں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کرلوںآخر میں ایک لطیفہ۔ میاں نواز شریف نے جیل سے عمران خان کو پیغام بھیجا ہے کہ اگر وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہنا تھا تو ’’مجھے کیوں نکالا‘‘