قرضے واپس کرنے والوں کو منا سب وقت دیں گے،چیف جسٹس ،آبادی کنٹرول کرنے کیلیے تجاویز طلب

118

اسلام آباد ( مانیٹر نگ ڈ یسک +آن لائن+صباح نیو ز)عدالت عظمیٰ نے 54 ارب روپے قرض معافی کیس میں فریقین کو قرضوں کی رضا کارانہ واپسی کے لیے 3ماہ کا وقت دے دیا۔چیف جسٹس نے کہا ہے کہ یہ قوم کا پیسہ تھا، لوگ کھا گئے، بینکس کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتا قابل قبول نہیں ہو گا، ادائیگیاں نہ کرنے والوں کی جائداد قرق ہو گی۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ فریقین مشورہ کر کے بتائیں کہ کب تک ادائیگی کریں گے؟ فریقین کی جانب سے 6 ماہ کا وقت دینے کی استدعا پر چیف جسٹس نے کہا کہ اتنے عرصے میں تو ریٹائرڈ ہو جاؤں گا، ڈیم کے لیے ریکوری کر رہے ہیں، زیادہ وقت نہیں دے سکتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی کمیشن نے فریقین کے ذمے کتنی رقم واجب الادا بتائی ہے؟ قرضے کی رقم رجسٹرار عدالت عظمیٰ کے پاس جمع کرائیں، واجب الادا رقم جمع نہ کرانے والوں پر پابندی لگا دیں گے۔نجی کمپنی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ بعض کمپنیاں واجب الادا رقم سے زیادہ ادائیگی کر چکی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو زیادہ رقم دے چکے ہیں وہ ایڈجسٹ کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پوسٹ ڈیٹڈ چیکس دے دیں، اس کو کیش سے تبدیل کر دیجیے گا، بینکنگ کورٹس کا آپشن بھی موجود ہے، 222 کیسز ہیں ایک ساتھ نہیں سن سکتے، کتنے لوگ رضاکارانہ اور کتنے بینکنگ کورٹ جانا چاہتے ہیں؟ مشاورت کر کے طے کریں، بینکس کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتا قابل قبول نہیں ہو گا، یہ قوم کا پیسہ تھا، لوگ کھا گئے ، اگر پیسے واپس نہیں کریں گے تو جائداد قرق ہو گی۔ مقدمے کی سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی گئی۔علاوہ ازیں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کاآغاز کیا توچیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاکہ ملک کے لیے یہ کیس انتہائی اہمیت کا حامل ہے، آبادی بڑھنے سے وسائل اور رہنے کی جگہ کم ہو رہی ہے، آبادی میں تیزی سے اضافہ دراصل بم دھماکا ہے،آبادی کنٹرول کرنے کے لیے آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے،آبادی کنٹرول کرنے کے لیے قانون سازی بھی درکار ہو گی۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نیشنل پالیسی پر ایک صوبے کو اعتراض ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت صوبوں کے درمیان تنازع حل کرا سکتی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ آبادی میں کنٹرول کے لیے لوگوں کو سمجھانا ضروری ہے،یہ نہیں ہوگا کہ پمفلٹ بنا کر تقسیم کر دیں، ایشو پر لوگوں کو راضی کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی فائدہ بھی دینا ہوگا،آبادی کنٹرول کے پروگرام میں ریاست معاشرے کو شامل نہیں کرتی اس ضمن میں معاشرے کو موبلائزڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس معاملے پر سیاسی کمٹمنٹ نظر نہیں آتی،گزشتہ 10برس میں آبادی کے کنٹرول کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے،جو کچھ ہوچکا وہ وقت واپس نہیں آسکتا، ماضی کے تجربات سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا،آبادی میں اضافہ بڑا گھمبیر مسئلہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خواتین کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے،خواتین کو آبادی کنٹرول کی چیزیں استعمال کے لیے نہیں ملتیں اور مردوں کی سوسائٹی میں خواتین مزاحمت نہیں کرتیں، آبادی کو کنٹرول کیے بغیر ترقی کے مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے،پالیسی بن جاتی ہے اصل ایشو عملدرآمد کا ہے، بہتر ہوگا نئی حکومت کا انتظار کر لیں،ابھی اگر حکم دینا ہو تو کس حکومت کو دیں،چاہتے ہیں کہ ایشو کو مزیدسمجھ لیں۔بعد ازاں عدالت نے آبادی کے ایشو پر نئی وفاقی صوبائی حکومتوں سے تجاویز طلب کر لیں اور آبادی میں اضافہ کیس کی سماعت نئی حکومتوں کی تشکیل(29 اگست) تک ملتوی کرتے ہوئے کہاکہ آئندہ نئی تشکیل پانے والی حکومتیں بھی معاملے کو زیرغورلاکر تجاویز دیں۔دوسری جانب چیف جسٹس ثاقب نثار نے دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ حکومت چاہے تو ڈیموں کی تعمیر کے لیے قائم فنڈ کو ٹیک اوور کرلے کیوں کہ ججوں کا کام نہیں کہ فنڈز اکٹھے کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جن ڈیموں پر تنازع نہیں ہے وہ ڈیم بنیں گے، ابھی انہی پر فوکس ہے تاہم کالا باغ ڈیم پر جب کبھی اتفاق ہوگا تو وہ بھی بن جائے گا ،ڈیمز کا ڈیزائن کیا ہوگا، ٹھیکا کسے دینا ہے، یہ ہمارا کام نہیں اور ہم ریاست اور انتظامیہ کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے، الیکشن کی وجہ سے فنڈز میں پیسے نہیں آسکے،اگر حکومت فنڈز اکٹھے کرسکتی ہے تو کرے اور حکومت چاہے تو قائم فنڈز کو ٹیک اوور کرلے کیوں کہ عدالت کے ججز کا کام نہیں کہ فنڈز اکٹھے کریں، لوگ چاہتے ہیں ڈیمز فنڈز کی نگرانی عدالت کرے، کل درگاہ کی حاضری پر مجھے کسی نے 5 لاکھ کا چیک دیا، لوگ اب پانی کے ضیاع پر بھی توجہ دے رہے ہیں اور ڈیمز کی تعمیر کے لیے فنڈز دینا چاہتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا بھی کہنا تھا کہ ڈیمز بنانا عدالت کا کام نہیں، عدالت صرف حکومت کی مدد کر رہی ہے۔چیف جسٹس نے نامور وکیل اعتزاز احسن سے مکالمہ کیا کہ کیا عدالت کا ڈیمز کے لیے فنڈز بنانے کا فیصلہ درست ہے؟ جس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ ڈیمز کے لیے فنڈز بنانے کا فیصلہ درست اور اچھا ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے بجلی کے بلوں پر ٹیکسز کا نوٹس لینے کا عندیہ دیا اور کہا کہ بجلی کے بلوں میں ناجانے کون کون سے ٹیکس اور سرچاج شامل کردیے جاتے ہیں اس لیے بجلی کے بلوں پر ہوشربا ٹیکسز پر بھی نوٹس لیں گے،غریب لوگوں کے پاس کھانے کے پیسے نہیں، وہ اتنے ٹیکسز کیسے دے سکتے ہیں؟۔عدالت نے ڈیمز کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔