پیتل گلی میں پیتل کے مجسمے اور آرائشی ظروف بنانے والے اب صر ف15کا رخانے مو جود ہیں،

520

کراچی کی پیتل گلی جہاں پیتل کے مجسمے اور آرائشی ظروف بنانے والے اب صر ف15کا رخانے مو جود ہیں،جس کی بنیا دی وجہ پیتل تانبے کی قیمت بڑھنے سے لاگت بھی کئی گنا اضا فہ اور کم قیمت پر ماربل سے بنی چیزوں کا ما رکیٹ میں آنا ہے،پیتل وتانبے کی آرائشی اشیاکی فروخت 70فیصدکم ہوگئی، اس حوالے سے پیتل گلی موجود کا ریگر محمد صدیق نے جسارت سے گفتگو کرتے ہو ئے بتا یا کہ میں پیتل گلی میں گزشتہ40برس سے تا نبے اورپیتل کی آرائشی اشیا ء بناے کا کا م کررہا ہوں،

پیتل گلی میں تا نبے اور پیتل کے کام کرنے والے کا رخانے اور کا ریگر وں کی بڑی تعداد موجود تھی لیکن اب پیتل گلی میں صرف 15کارخانے مو جود ہیں،اور ہر گزرتے دن کے ساتھ پیتل کے کام کرنے والے کا ریگر اور کارخانے کم ہو تے جا رہے ہیں، کاریگروں نے دوسرے پیشے اختیار کرلیے ہیں،ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی عدم دلچسپی اورنامساعد حالات کے باعث تانبے اورپیتل کی آرائشی اشیابنانے کافن معدوم ہونے لگا جب کہ بیروز گاری سے تنگ کاری گروں نے سینٹری مارکیٹ میں ہیلپرنگ اورلوڈنگ گاڑیاں چلانے کاکام شروع کردیا۔

ان کا کہناتھا کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے ہنرمندوں نے کراچی کے علاقے گولی مارکے علاقے میں پیتل گلی کی بنیاد ڈالی جہاں سوسے زائد دکانوں اور کارخانوں میں تانبے پیتل سے بنی ہوئی آرائشی اشیافروخت کی جاتی تھیں تاہم کراچی میں بجلی کی لو ڈ شیڈنگ اور برآمدات میں حائل رکاوٹوں کی وجہ سے یہ فن زوال پذیر ہو رہا ہے، پیتل گلی میں سینٹری مارکیٹ پھیلتی چلی گئی اورپیتل تانبے کے کاریگرکم ہوگئے، اس وقت پیتل گلی میں 15 سے 20 دکانیں اورکارخانے باقی رہ گئے ہیں جوبڑھتی ہوئی لاگت اورفروخت میں کمی سے دوسرے روزگارتلاش کرنے پر مجبور ہیں۔ اہل خانہ کی کفالت کے لیے آبائی پیشہ ترک کرنا پڑا رہا ہے جس کا مجھے بہت زیادہ افسوس ہے،

تانبے و پیتل کے آرائشی ظروف بنانے والے ماہرکاریگروں کافن پاکستان سے باہربھی مشہوراورملک کی پہنچان ہے تاہم حکومتی سطح پرکوئی سرپرستی اور معاونت نہ ہونے اورنامساعدحالات کی وجہ سے یہ فن معدوم ہوتا جارہا ہے،آرائشی اشیا بنانے والے کاریگروں کو ملک میں ہونے والی تجارتی نمائشوں میں شرکت کے مواقع فراہم کیے جائیں تواس شعبے کو ایک بار پھر عروج کی جانب گامزن کیا جاسکتا ہے۔

پیتل تانبے کے کاریگروں نے یہ فن اپنی آنے والی نسل کوبھی منتقل نہیں کیا جس سے کچھ عرصے بعداس فن کے مکمل طور پر ختم ہونے کاخدشہ ہے، پاکستان میں بنائی جانے والی پیتل تانبے کی اشیا بالخصوص گلدان، قندیلیں، کلس ، ہاتھی، ہرن، گھوڑوں اوردیگر جانوروں کے مجسمے اور ظروف سازی کے کام سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ بھارت کے علاقے مرادآباد سے آنے والے افراد اس فن میں ماہرتھے جنھوں نے کراچی میں اس گھریلو صنعت کی بنیادرکھی۔

پیتل گلی میں بنائے گئے ظروف اورمجسمے زیادہ تر مشرق وسطیٰ اور خلیجی ملکوں کو ایکسپورٹ کیے جاتے رہے جوامیر طبقے کے گھروں کی زینت بنے، پاکستان کے کاریگروں نے ایران اور عراق کے مقامات مقدسہ اور مزارات میں آرائشی اشیااور مزارات کی جالیاں بھی تیارکیں جبکہ اسلامی ممالک میں مساجد کے میناروں کے کلس خاص طور پر کراچی کے اس بازار سے بنوائے جاتے رہے ہیں۔لیکن اب ہمارے بنائے گئے ظروف اورمجسمے صرف ایران اور چین ایکسپورٹ ہو رہے ہیں،

کاریگر محمدکا شف کا کہنا تھا کہ 90کی دہائی میں کراچی کے حالات بالخصوص ہڑتال اور جلاوٓ گھیراوٓ پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے اس کام کو شدید نقصان پہنچا ملک میں بدامنی کی وجہ سے سیاحوں نے پاکستان آنا چھوڑ دیا جو ان اشیاکے سب سے بڑے خریدارتھے اس طرح یہ کام زوال کی جانب گامزن ہوگیا اوررہی سہی کسر پیتل گلی میں سینٹری بازار کے قیام سے پوری ہو گئی۔

پیتل کا کام کرنے والے کارخانے اوردکانیں اب سینٹری اشیاکی فروخت کے مراکز اور گوداموں میں تبدیل ہوچکے ہیں، پیتل کی آرائشی اشیاکی فروخت 70فیصد تک کم ہو چکی ہے اور صرف امیر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہی آرائشی اشیاخریدرہے ہیں جبکہ محدود پیمانے پرایکسپورٹ کاکام جاری ہے، پیتل اور تانبے کی اشیاکی فروخت میں نمایاں کمی کے نتیجے میں ماہر کاریگریومیہ اجرت پر مزدوری کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، ماہر کاریگر بے روزگاری کی وجہ سے اب سینٹری مارکیٹ میں لوڈنگ اور ہیلپری کرنے کے ساتھ لوڈنگ گاڑیاں چلاکرگزر بسر کر رہے ہیں۔

پیتل گلی میں موجود کا ریگر ارسلان احمد کا کہنا تھا کہ 25جو لائی 2018 کو ہو نے والے انتخابات میں جو سیا سی جما عت بھاری اکثریت سے کراچی سے کامیا ب ہو ئی ہیں ان سے امید ہے کہ وہ پیتل کے کام سے وابستہ ہنرمند افراد کے لئے روز گار کے نئے مو اقع فراہم کر نے میں ہماری مدد کر ینگے ، کراچی میں امن و امان کی موجودہ صورتحال میں بہتری آئی ہے ،شہر کے حالات بہتر ہونے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں تیز ہورہی ہیں اور غیرملکی مہمان بھی پاکستان آرہے ہیں،