حکومت سازی میں اخلاقیات کا خیال رکھیں

265

انتخابی گہما گہمی ختم اب حکومت سازی کے مراحل آگئے ہیں۔ انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج، نئے الیکشن کے انعقاد، چیف الیکشن کمشنر کے استعفیٰ وغیرہ پر بات جاری رہے گی۔ بہت سے اخبارات ٹی وی چینلز کے شور شرابے میں اس قدر دباؤ کا شکار ہیں کہ ابھی سے عمران خان کو حکمران اور باقی پارٹیوں کو اپوزیشن لکھنے لگے ہیں ۔ اگرچہ قومی اسمبلی کے نتائج کے اعتبار سے پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد زیادہ ہے اور وہ واحد بڑی پارٹی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن جب تک اسمبلی میں حلف برداری اور حکومت سازی نہ ہو جائے حکومت اور اپوزیشن کی اصطلاحات استعمال کرنے میں احتیاط رکھنی چاہیے یہ احتیاط تو میڈیا کو کرنی چاہیے لیکن ممکنہ حکمران اور دوسری پارٹیوں کو بھی انتخابی قواعد اور اخلاقیات کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔ حکومت سازی میں پاکستان میں چھانگا مانگا اور مری کی سیر سے لے کر کروڑوں روپے کی پیش کشوں تک بات جا پہنچی ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ سیاست میں آج کسی سے اختلاف ہے تو کل اسی کے ساتھ مل کر حکومت بنانی پڑتی ہے لیکن بعض اقدامات ایسے ہیں کہ انہیں ہر جانب سے روکنے کی ضرورت ہے کم از کم ایک ایسے شخص کی جانب سے حکومت سازی کے لیے اپنے طیارے میں ارکان اسمبلی بٹھا کر اسلام آباد لے جانا یا مختلف پارٹیوں سے ان کا رابطے کرنا ایک نہایت غلط کام ہے جسے عدالت نے نا اہل قرار دے دیا ہے۔ خصوصاً ایسی پارٹی کے لیے یہ جدوجہد جس کا سربراہ کرپشن کے خاتمے کا دعویدار ہے اسی طرح ارکان اسمبلی اور آزاد ارکان کی بولیاں لگانے کی خبریں بھی عام ہو رہی ہیں۔ یہ سلسلہ اور اس انداز سے حکومت سازی نہایت قبیح فعل ہے۔ ویسے بھی بقول امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق جیتنے والے بھی شرمسار ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ وہ کس طرح جیتے یا جتائے گئے ہیں ۔ اس کے باوجود جوڑ توڑ سے بڑھ کر خرید و فروخت کی جائے تو اس ملک میں کسی جمہوریت کی کیا ضرورت۔ ابھی تو بہت سے مراحل باقی ہیں صدر مملکت کا اسمبلی اجلاس طلب کرنا، حلف برداری پھر اکثریتی جماعت کو حکومت سازی کی دعوت دینا اور اس کا اکثریت ثابت کرنا۔ اس کے بعد اپوزیشن اور حکومت وجود میں آئے گی۔ فی الحال تو پی ٹی آئی اور دوسرے گروپ 172 کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں ۔ توقع ہے کہ دونوں طرف کچھ ٹھہراؤ آگیا ہوگا اور توازن کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ خصوصاً عمران خان نے اپنے رویئے میں تبدیلی پیدا کی ہے اور وہ اب ٹی وی اسکرین پر مخالفین کو للکارتے ہوئے نظر نہیں آرہے۔ جس طرح عدالت سے نا اہل قرار دیے گئے پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین کا اپنے لیڈر کو وزیراعظم بنوانے کے لیے خرید و فروخت کرنا غلط ہے اسی طرح پی ٹی آئی لیڈر کو اب یہ احساس ہو رہا ہوگا کہ جلسوں میں نعرے اور القابات دیتے وقت احتیاط کی ہوتی تو آج انہیں اس نعرے کا سامنا نہ کرنا پڑتا کہ کل کا ڈاکو آج کا بھائی ، پرویز الٰہی۔ حالاں کہ انتخابات میں ایسا ہوتا ہے کہ کل کے دشمن آج کے دوست بن جاتے ہیں اسی لیے سیاسی بیانات اور فیصلوں میں دروازے بند نہیں کرنے چاہییں ورنہ سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہرحال سیاسی جماعتوں نے پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ مستحسن ہے۔ کیوں کہ یہ تو ممکن نہیں نظر آتا کہ دوبارہ انتخابات کرادیے جائیں۔ 27حلقوں میں دوبارہ گنتی کا حکم ایک مثبت قدم ہے الیکشن کمیشن ان حلقوں کی جانب بھی توجہ دے جہاں شکایات بہت زیادہ ہیں، تو ممکن ہے کہ انتخابی نتائج سے شاکی سیاسی جماعتیں چیف الیکشن کمشنر کے استعفیٰ کا مطالبے سے بھی پیچھے ہٹ جائیں۔ دوسری طرف یہ باتیں بھی ہورہی ہیں کہ تحریک انصاف کے مقابلے میں ووٹوں کی تعداد پوری کرنے کے لیے مسلم لیگ ن اور پی پی نے حکمت عملی تیارکرلی ہے۔ مشورہ ان کے لیے بھی یہی ہے کہ ووٹوں کی تعداد پوری کرنے کے لیے معروف طریقے اختیار کریں خرید و فروخت سے اجتناب کریں۔ انتخابی نتائج نے جمہوری عمل اور الیکشن کے طریقے پر بہرحال سوالات پیدا کردیے ہیں ۔ ان سوالوں کے جواب دینا الیکشن کمیشن مداخلت کے الزام سامنا کرنے والے اداروں اور آنے والے حکمرانوں کی ذمے داری لے ورنہ صورت حال خرابی کی طرف جائے گی جس سے غیر جمہوری اور ریاست دشمن قوتوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکتا ہے۔ اگر دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی نمبر گیم کے چکر میں لوٹے خریدنے کا سلسلہ شروع کیا تو عوام پر اس کا اچھا اثر نہیں ہوگا۔