عمران خان نے نظریہ بدلا یا ضمیر کا سودا کیا ہے؟ 

567

عام انتخابات ہوگئے تبدیلی آگئی۔ قوم خوش فہمی کا شکار ہے کہ نظام تبدیل ہوگا۔ حالاں کہ جس سسٹم کے تحت تحریک انصاف بھاری ووٹوں اور سیٹوں کے ساتھ قومی اسمبلی کے ایوان میں پہنچی وہ بھی اسی اسٹیبلشمنٹ کی مرہون منت ممکن ہوسکا ہے جو 70 سال 11 ماہ سے پورے کے نظام کو اپنی گرفت میں جکڑے ہوئے ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جو ملک کے طاقت ور ترین اداروں کا مجموعہ ہے اس کے ’’تعاون یا حمایت کے بغیر اگر کوئی حکومت یہاں وجود میں آئی تو وہ صرف‘‘ آمریت یا فوجی حکومت آسکی۔ قوم کی بدقسمتی ہے کہ جمہوری حکومتیں کبھی بھی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کرتے ہوئے نہ بن سکیں اور نہ ہی آزادانہ چل سکیں۔
پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے عمران خان کو 22 سال 4 ماہ تک مسلسل سیاسی جدوجہد کرنا پڑی۔ اس جستجو کے لیے انہیں بہت کچھ برداشت کرنے کے ساتھ اپنے وعدوں اور دعووں کی ناکامیاں بھی دیکھنی پڑیں۔ لیکن بالآخر انہیں کامیابی ملی تو وہ بھی ان ہی کی وجہ سے جنہوں نے انہیں 1999 ہی میں وزیر اعظم بنانے کی پیشکش کردی تھی۔
تقریباً 14 سال قبل بھارتی ٹی وی کے پروگرام ’’آپ کی عدالت‘‘ میں عمران خان نے میزبان راجت شرما کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ: ’’پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آج تک کسی نے کوئی الیکشن نہیں جیتا اور اسٹیبلشمنٹ ساتھ کھڑی ہوجائے تو کوئی پارٹی شکست نہیں کھا سکتی‘‘۔ عمران نے یہ بھی کہا تھا کہ ایسی صورت میں ’’مجھے اپنے نظریے کو بدلنا پڑتا یا اپنے ضمیر کا سودا کرنا پڑتا‘‘۔ عمران خان کا پروگرام میں واضح الفاظ میں کہنا تھا کہ ’’پرویز مشرف نے مجھے وزیر اعظم بننے کی پیشکش کی تھی مگر میں نے قبول نہیں کی‘‘۔
اگر یہ سچ ہے تو یقیناًعمران خان کو اپنی تحریک کے 22 سالہ دور کے دوران پرویز مشرف کی پیشکش سے انکار کا احساس ایک زاید مرتبہ ہوا ہوگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 2013 میں اپنے سوچوں کو بدل ڈالا تھا مگر اس وقت تک نواز شریف کی قسمت کا فیصلہ کیا جاچکا تھا۔ اب 2018 میں جمہوریت کے مسلسل تیسرے دور کی شروعات ہوئیں تو پاکستان میں تبدیلی آنے کی بازگشت ڈھول باجوں اور گانوں کے ساتھ ہورہی ہے۔ مگر ایک جماعت کے سوا تقریباً تمام سیاسی پارٹیاں ان انتخابات کے نتائج کو دھاندلی سے بھر پور اور انجینئرڈ قرار دے رہی ہیں۔ فوج کی پولنگ اسٹیشنوں کے اندر موجودگی کو آئین کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔ اگر یہ آئین کی خلاف ورزی تھی تو یہ کس نے کرائی کون ہے اس کا ذمے دار؟ یقیناًاس کی ذمے داری اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔ پس اس سے یہ شبہ ہی نہیں بلکہ یقین ہورہا ہے کہ یہ سب کچھ تبدیلی کا نعرہ لگانے والے انصافیوں کے حق میں انہیں آسانیاں فراہم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اگر اس بات کو درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر تحریک انصاف کے بانی و چیئرمین عمران خان سے یہ سوال پوچھنے کا ہر ایک کو حق ہے کہ: ’’خان صاحب آپ نے نظریہ بدلا یا ضمیر کا سودا کیا ہے؟‘‘۔
میں تو صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ ان انتخابات کے ذریعے بھی نظام نہیں بدلے گا صرف شخصیات بدلی ہیں۔ جمہوریت کے چمپیئنوں کے دعویداروں میں عمران خان کا نیا اضافہ ہوا ہے۔ مگر میں پھر بھی ’’ربّ کی مخلوق‘‘ کو مبارکباد دوں گا کہ انہوں نے جیسے تیسے مگر شفاف پولنگ کر واکر اس پارٹی کو ملک کی نمبر ون پارٹی بنادیا جس کی طرف قوم کی نظریں تھیں۔ انتخابات کے لیے پولنگ شفاف ہونے سے ایک بار پھر یقین ہوگیا کہ پاک فوج ملک و قوم کے ساتھ ہے اور ان کی امیدوں پر پورا اترتی ہے۔ خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے اور عمران خان کے وزیراعظم بننے سے کراچی کے سی ویو سے لیکر مری کی تفریح گاہوں پر تبدیلی آئے گی اور تفریحات کی سہولتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔ ممکن ہے کہ ’’نائٹ کلب‘‘ بھی قائم ہونے لگیں۔