’’کیوں نکالا‘‘ کا بیانیہ پہلے صرف نواز شریف کی زبان پر تھا اب ہر پارٹی کے رہنما کی زبان پر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک بھر میں ووٹوں کی گنتی سے پہلے، دوران یا بعد میں پولنگ ایجنٹ کو کیوں نکالا؟ اور کس نے نکالا اور پولنگ ایجنٹ کو فارم 45 اور 46 دیے بغیر کیوں نکالا؟ فارم پر نتائج ملے بغیر میڈیا نے اعتماد کے ساتھ نتائج نشر کرنے کیسے شروع کردیے؟ چلیں نشر کر ہی دیے تھے تو آخر تک چند ہزار ووٹ رات گئے لاکھوں میں کیسے تبدیل ہوئے؟ خاص طور سے سراج الحق کے مقابلے میں جتنے والے کے سامنے اسکور زیرو نظر آتا رہا اور پھر وہ جیت گیا۔ سوالات وقت کے ساتھ ساتھ بڑھنے کے امکانات ہیں۔ لیکن سب سے اہم سوال وہی ہے کہ ’’کیوں نکالا‘‘؟۔ یہ سوالات برسوں دوہرائے جاتے رہیں گے۔ دوسری طرف وقت کا کام تو آگے بڑھنا ہے۔ سوالات اور اُن کے جوابات سے اُسے فرق نہیں پڑتا۔ وہ رُک کر ہمیں سوالوں کے جوابات نہیں دیتا۔ ہاں اُس کی چال بہت کچھ بتاتی ہے اور بتائے گی۔
گھر ٹھیک کرنے میں ناکامی کا اعتراف چیف جسٹس نے کیا ہے۔ افسوس ہے کہ وہ اپنے حصے کے گھر کو بھی صاف نہ کرسکے اُن کے حصے کا کام گھر کا اہم ترین کام ہے۔ اگر عدالتیں اپنے کام درست طرح انجام دینے لگیں تو گھر میں مزید نقصان نہیں ہوگا۔ بلکہ ہر نقصان کا ازالہ ممکن ہوسکے گا۔ اب بھی جتنا وقت ہے وہ یہ ہی کام کر گزریں تو یہ ان کے اور گھر دونوں کے لیے بہتر ہوگا۔ یہ خیال سب کے ذہن میں آتا ہے کہ فلاں معاملہ یوں ہوتا تو بہتر ہوتا۔ حالات ایسے نہیں ویسے ہوتے تو اچھا ہوتا، اگر کامیابی کا گر اس طرح استعمال ہوتا تو کیا بات تھی، اگر ہم فلاں فلاں معاملے میں ایسا کرتے تو کہاں سے کہاں ہوتے۔ یہ خیالات ذہنوں میں پیدا ہونا معمول کی بات ہے کہ انسان آگے بڑھنے کی خواہش رکھتا ہے۔ جو کچھ حاصل ہے اس کے مقابلے میں جو حاصل نہیں ہے اُس پر نظر ہوتی ہے۔ پھر چوں کہ کوششیں زیادہ ہوتی ہیں، اخلاص اور ایثار کا جذبہ بھی زیادہ ہوتا ہے، بزعم خود۔۔۔ لہٰذا ایک غم اور اداسی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ دنیا میں یہ کیفیت عام ہے، گھروں میں کچھ برتن قیمتی ہوتے ہیں، پسندیدہ ہوتے ہیں، ٹوٹ جاتے ہیں، ذریعہ کوئی بھی ہوسکتا ہے لیکن برتن کو ٹوٹنے سے روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا تو کیا اس کے لیے شور و غل مچانا چاہیے۔ اہل خانہ کو طعنے دے دے کر اپنا دل ہلکا کرنا چاہیے۔ یا انہیں یاد کرکر کے کڑھتے رہنا چاہیے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو برتنوں کو تو واپس نہیں لاتا لیکن ہمارا قیمتی وقت جو بہت نادر اور نایاب ہوتا ہے اُسے ضائع کردیتا ہے۔ عمل کو چھوڑ کر بے عملی کا عادی سا بنادیتا ہے۔
بقول غالبؔ بے عمل آدمی کی کیفیت کچھ یوں ہوتی ہے کہ
کوئی اُمید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
بات نہ کرنا ناراضی کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن یہ ناراضی کی نہیں اُداسی اور غم کی کیفیت کے باعث ہوتا ہے۔ بس یوں سمجھیں کبھی آدمی اپنے آپ ہی سے ناراض ہوجاتا ہے۔ کہ کوششیں تو دل ناتواں نے خوب کی تھی لیکن مطلوبہ نتائج نہ نکلے، اب اس میں فلاں فلاں کا قصور تھا۔ فلاں فلاں جگہ کمزوری تھی۔ لہٰذا ایسا ہوا۔ حالاں کہ ہمارا تو دین و ایمان ہمیں یہ تسلی دیتا ہے کہ تمہارے بس میں اگر کچھ ہے تو محض کوشش کرنا نتائج تو تم کو تمہاری مرضی کے مطابق ملنا نہ ملنا یقینی نہیں ہے۔ اور اس پر تمہاری پوچھ بھی نہیں ہے۔ پھر سوال وہی اُٹھتا ہے کہ ہم کوشش کیا کریں اور کس اُمید پر کریں۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں ہم سب کو اپنی خوش نصیبی کا جشن منانا چاہیے۔ کیوں کہ کام تو سب نے کیا۔ سب ہی کررہے ہیں، دنیا بھی سمیٹ رہے ہیں، کچھ اگر حرام اور حلال کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر سمیٹ رہے ہیں تو ایسا تو نہیں کہ اللہ نے اپنے حکم پر چلنے والوں کو یوں ہی چھوڑ دیا ہے۔ دنیا کی زندگی کے لیے ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ربّ کی عطا موجود ہے۔ بہت سے اُن معاملات میں جن پر بڑی فکر مندی ہوتی ہے۔ آزمائش اور امتحان کی کڑی کیفیات گزرتی ہیں لیکن پھر یوں گزر جاتی ہیں کہ جیسے کسی نے ہاتھ تھام کر گزارا ہو پشت پناہی کی ہوا اور پار لگادیا ہو۔
یہ انتخابات کے امتحان کا معاملہ بھی یوں ہی ہے۔ سب سمجھ رہے ہیں، شور مچارہے ہیں ’’کیوں نکالا‘‘ تماشا لگانے والے بڑے مطمئن ہیں کہ ہم نے بڑا متوازن اختتام کیا۔ تبدیلی آبھی گئی اور نہیں بھی آئی، ہر ایک کو اُس کے حصے کا کیک دے دیا گیا، کچھ کمی زیادتی کی گئی لیکن اصل مقصد اُسی طرح پورا کیا کہ اسلامی جماعتوں کو خوب پسپائی کا احساس دلایا۔ اُدھر امریکا نے بھی شور مچایا کہ ’’عوام نے مسترد کردیا ہے‘‘ لیکن سب جانتے ہیں کہ جہاں تحریک انصاف کا جھنڈا تک نہ تھا وہاں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے گئے۔ جہاں زرداری کے خلاف عوام بول اُٹھے تھے وہاں انہیں اُن کی توقع سے زیادہ دے دیا گیا۔ (ن) لیگ کو بھی کچھ اتنا دے دیا گیا کہ وہ اُسے جیل سے نکلنے کا ذریعہ سمجھ کر پکڑ کر اور جم کر بیٹھیں گے۔ لیکن ایم ایم اے کو اُن کے یقینی علاقوں میں ناکامی کا جھنڈا دکھا دیا گیا تا کہ مایوس ہوجائیں، اتحاد کو چھوڑیں اور منتشر ہوجائیں۔ آخیر ہماری آشیر باد کے بغیر اتحاد بنانے کی ہمت کیسے کی؟ بس لو اب اس کا نتیجہ بھگتو۔
اطمینان رکھیں نتیجہ تو بھگتنا ہی ہے اور سب کو ہے۔ لکھنے والے لکھ رہے ہیں کس نے کیا کیا اور کیوں کیا؟ مزے میں وہ ہیں جنہوں نے پورے اخلاص نیت کے ساتھ وقت مال، جان اور قابلیتیں بگا ڈالیں، تجارت کرلی اس یقین کے ساتھ کہ منافع دینے والا وہ ہے جو وعدہ کرتا ہے کہ دنیا میں بھی تم کو دوں گا اور آخرت میں بھی۔ اس کے پاس کوئی حد نہیں ہے، کوئی کمی نہیں ہے۔ سو آئیے ایک میدان سے دوسرے میدان میں آجائیں یعنی خدمت اور دعوت کا میدان۔ زندگی کی آخری سانس تک جیتنے کا یقین لیے جشن منائیں۔ روح کو گرمائیں اور خوش رہیں اور خوش رکھیں۔ اُمید کے دیے جلاتے رہیں۔