کمزور حکومت خطرناک ہوگی

363

الیکشن کمیشن نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ انتخابات شفاف تھے، دھاندلی کی کوئی شکایت نہیں ملی، سب کو یکساں ماحول فراہم کیا گیا۔ حقائق سے نظریں چرانا شاید اسی کو کہتے ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس پارٹی کو جتوایا گیا وہ بھی دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کہتاہے کہ تنقید کرنے والے عوام کے مینڈیٹ کا احترام کریں اور عوام حیران ہیں کہ ان کا مینڈیٹ پولنگ باکس سے نکلا کیوں نہیں۔ اگر شفافیت اتنی ہی یقینی ہے تو الیکشن کمیشن کو دوبارہ گنتی کرانے کے مطالبات مسترد کردینے چاہییں لیکن کئی حلقوں میں دوبارہ گنتی کرائی جارہی ہے اور کہیں جیتنے والے ہار رہے ہیں اور کہیں ہارنے والے جیت رہے ہیں۔ ڈالے جانے والے ووٹوں میں کمی، بیشی تو عام سی بات ہے۔2013ء کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی دھاندلی کے الزامات لگائے تھے اور 35پنکچر لگانے کا شور مچایا تھا۔ انہوں نے 126دن کا ریکارڈ دھرنا بھی دیا تھا۔ اس بار خود ان کے خلاف الزام ہے کہ تحریک انصاف جیتی نہیں، اسے جتوایا گیا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ بڑی ’’صاف، شفاف‘‘ دھاندلی ہوئی ہے، ایسی کہ دامن پر کوئی چھینٹ بھی نہیں ۔ تمام کوششوں کے باوجود کہیں کوئی کسر رہ گئی ہے کہ تحریک انصاف کو واضح اکثریت نہیں مل سکی اور ابھی تک نمبروں کا کھیل چل رہا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت تو بن ہی جائے گی لیکن جو صورت حال بن رہی ہے اس کے مطابق بہت کمزور حکومت ہوگی۔ اس وقت مختلف جماعتوں میں تقسیم حزب اختلاف عددی اعتبار سے تحریک انصاف سے آگے ہے۔ چنانچہ حکومت کو قومی اسمبلی میں سخت مخالفت کا سامنا رہے گا۔ کمزور حکومت پاکستان کے لیے ہر گز بھی فائدہ مند نہیں ۔ عمران خان نے بہت اچھے عزائم کا اعلان کیا ہے اور خدا کرے کہ وہ کچھ اچھے کام کرجائیں لیکن کمزور حکومت کے لیے اپنے فیصلوں پر عمل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ پارلیمنٹ میں دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مخالفت حکومت کو آسانی سے چلنے نہیں دے گی۔ قومی اسمبلی سے منظور ہونے والا بل توثیق کے لیے سینیٹ میں جاتا ہے جہاں تحریک انصاف کی پوزیشن بہت کمزور ہے۔ امکان ہے کہ عمران خان 11اگست کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا لیں گے۔ اس کے فوراً بعد ہی ان کے سامنے نئے صدر کے انتخاب کا مرحلہ ہوگا۔ ان کی بھی کوشش ہوگی کہ وہ اپنا ممنون حسین لے کر آئیں۔اس کے لیے سینیٹ کی منظوری بھی درکار ہوگی اور اس سے واضح ہو جائے گا کہ تحریک انصاف کس حد تک مضبوط ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ بیشتر سیاسی جماعتوں نے کوئی رکاوٹ نہ ڈالنے کا وعدہ کیا ہے اور اس وقت ذرائع ابلاغ کی اکثریت بھی عمران خان کے حق میں جارہی ہے، اس کی وجہ خواہ کچھ ہو۔ لیکن شکست خوردہ جماعتیں کہیں نہ کہیں اپنا غبار تو نکالیں گی اور یہی مرحلہ آزمایش کا ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عمران خان کے نیک ارادوں اور اچھے اقدامات کی پشت پناہی کی جائے اور انہیں پورا پورا موقع دیا جائے کہ وہ پاکستان کو فلاحی اسلامی ریاست بنانے کے وعدے پر عمل کر کے دکھائیں۔عمران خان کو بھی دعوے کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے اب وہ ایک اہم منصب پر فائز ہونے جارہے ہیں جو سنجیدگی کا متقاضی ہے۔ ان کے پرانے نعرے اور دعوے لوگوں کو یاد ہیں جو گاہے گاہے سامنے لائے جاتے رہیں گے۔ آج وہ امریکا سے برابری کی بنیاد پر اچھے تعلقات کی بات کرتے ہیں اور ایسا ہونا بھی چایے کہ کسی بھی ملک سے دشمنی فائدہ مند نہیں ہوتی لیکن یہی عمران خان تھے جنہوں نے نعرہ لگایا تھا کہ ہم پاکستان کے راستے افغانستان کو جانے والے امریکی کنٹینروں کا راستہ روک دیں گے اور اس کے لیے دھرنا دیں گے ۔ مگر وہ یہ کام نہیں کرسکے۔ 4جولائی 2018ء کو عمران خان نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے اپنے 7سو کے قریب امیدواروں کی سچائی کی ضمانت نہیں دے سکتے اور مزید فرمایا کہ ’’ آپ جیتنے کے لیے انتخابات لڑتے ہیں، آپ اچھے بچے کے طور پر انتخابات نہیں لڑتے اور میں جیتنا چاہتا ہوں‘‘۔ یعنی بنیادی مقصد محض حکومت حاصل کرنا تھا اور وہ مل رہی ہے۔ عمران خان کو یاد ہوگا کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’ یہاں پر جو سیاسی طبقہ ہے وہ زیادہ تبدیل نہیں ہوتا، آپ نئے کردار متعارف کراسکتے ہیں لیکن پورے سیاسی طبقے کو تبدیل نہیں کرسکتے‘‘۔ عمران خان نے تو زیادہ نئے کردار بھی متعارف نہیں کرائے اور جیتنے کی خواہش میں دوسروں کے گندے انڈے بھی اپنی ٹوکری میں ڈال لیے جن کو الیکٹ ایبل کا نام دیا گیا۔ یعنی وہ خواہ کیسے ہی ہوں مگر انتخاب جیتنے کے گر سے واقف ہوں۔جب سیاسی طبقے کو بدلنے کا ارادہ ہی نہ ہو تو تبدیلی کیسے آئے گی اور اگر آئے گی تو کیا وہ مثبت ہوگی۔ بدعنوانی کا خاتمہ ضرور ہونا چاہیے کہ اس نے ملک کو کھوکھلا کردیا ہے لیکن کیا بدعنوان افراد کے ذریعے اس کا خاتمہ ہوسکے گا؟ عمران خان ملک کو بین الاقوامی سود خوروں سے نجات دلانا چاہتے ہیں اور آئی ایم ایف سے پیچھا چھڑانے کی بات کرتے ہیں ۔ خدا کرے کہ ایسا ہو جائے لیکن یاد کریں کہ 22اپریل 2018ء کو لندن میں ایک سرمایہ کار بینک ’’ زوٹک کیپٹل‘‘ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کی معاونت قبول کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ عمران خان امریکا سے متوازن تعلقات چاہتے ہیں لیکن یہ امریکا ہی ہے جس نے خطے کے مسلمانوں کے لیے امن و سلامتی کو خطرے سے دوچار کیا ہوا ہے۔ اس کی تازہ ترین بدمعاشی یہ ہے کہ اس نے آئی ایم ایف کو تاکید کی ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت کو ’’ بیل آؤٹ پیکیج‘‘ نہ دیا جائے۔ امریکی وزیر خارجہ نے ایک بار پھر پاکستان سے دشمنی کا کھل کر اعلان کرتے ہوئے کہا کہ چین کا قرض ادا کرنے کے لیے آئی ایم ایف پاکستان کو فنڈز نہ دے، ہم آئی ایم ایف پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دیتا ہے یا نہیں اس سے امریکا کا براہ راست کوئی تعلق نہیں لیکن اس کو پابند کرنے کا مقصد پاکستان کی دشواریاں بڑھانا ہے۔ پاکستان سمیت پورے عالم اسلام کے کھلے دشمن امریکا سے کسی بھی قسم کے تعلقات رکھنا حماقت ہے۔ مدینہ جیسی ریاست قائم کرنے والے کے رب نے صاف کہہ دیا ہے کہ یہود و نصاریٰ تمہارے کھلے دشمن ہیں اوراس وقت تک تم سے راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے طور طریقے اختیار نہ کرلو۔ عمران خان کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ نعرے بازی اور دعوے کرتے ہوئے اب سوچ سمجھ سے کام لیں، اب وہ محض کھلاڑی نہیں رہے، وکٹیں اڑانے کے بجائے نئی فیلڈ پر جمنے کی کوشش کریں ۔