جاتی امرا ٰسے بستی پٹھاناں تک تاریخ کا سبق

370

آخر کار چند دن کی خاموشی کے بعد بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کے جواب میں مبارکباد اور خیرسگالی کا ٹیلی فون کر ہی دیا۔ نریندر مودی کی طرف سے پاکستان میں جمہوریت کے پنپنے کے حوالے سے نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا تو عمران خان کی طرف سے پائیدار تعلق اور دوستی کے لیے مسائل کے حل کی بات کی گئی۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات اس وقت انجماد کا شکار ہیں۔
بھارت نے پاکستان میں سیاسی اتھل پتھل اور میاں نوازشریف کے گردشِ دوراں کا شکار ہوتے ہی مذاکرات اور روابط سے ہاتھ کھینچ لیا تھا اور وہ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر چل پڑا تھا۔ پاکستان نے بھی پہلے ممبئی اور بعدازاں پٹھان کوٹ حملوں سے بھارت کے برہم مزاج کو ٹھیک کرنے میں قطعی دلچسپی نہیں دکھائی اور کنٹرول لائن سے اقوام متحدہ تک بھارت کے ہر الزام اور دشنام کا ترکی بہ ترکی جواب دینے کا راستہ اختیار کیا تھا۔ سرکاری روابط تو اعلانیہ طور پر منقطع تھے ٹریک ٹو کی وادیاں بھی ویران رہیں اور ان دروزاوں پر تالے اور جالے پڑے تھے۔ امریکا اور چین جیسے ممالک پاکستان اور بھارت کی قیادتوں پر مذاکرات کرنے پر زور دیتے رہے مگر یہ مشورے بھی اکارت جارہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ دونوں ملکوں میں اب تصادم ہی واحد آپشن رہ گیا ہے۔ ایسے میں پاکستان میں انتخابات کے نتیجے میں ایک تبدیلی کے آثار پیدا ہو گئے اور عمران خان نے بھارت کے ایک قدم آگے بڑھانے کی صورت میں دوقدم بڑھانے کا اعلان کیا۔ اس تقریر کا دنیا میں خیر مقدم ہوا۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی پسند اور بھارتی دھارے میں سیاست کرنے والی قیادت دونوں نے بیک زبان بھارتی حکمرانوں سے اس پیشکش کا فائدہ اُٹھانے کا مطالبہ کیا۔
ایک کرکٹر کی حیثیت بھارت میں عمران خان کی لاتعداد دوستیاں ہیں۔ بھارت کا میڈیا اپنے شہرہ آفاق کرکٹر کپل دیو سے عمران خان کے معاملے میں ’’پوائنٹ آف ریفرنس‘‘ کے طور پر رجوع کررہا ہے اور کپل دیو کے تمام تبصرے عمران خان کی محبت سے لبریز ہیں۔ ان کے خیال میں ان کا ہم عصر کرکٹر بہترین قائدانہ صلاحیتوں اور حیران کردینے والے فیصلوں کی قدرت کا حامل ہے۔ عمران خان کا ایک حوالہ مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر کے نواح میں بستی پٹھاناں بھی ہے جہاں عمران خان کی والدہ شوکت خانم نے پٹھانوں کے معروف برکی قبیلے میں جنم لیا تھا۔ یہ خاندان قیام پاکستان کے وقت جالندھر سے لاہور منتقل ہوا تھا۔ جالندھر کی بستی پٹھاناں اور کپل دیو جیسی ذاتی دوستی کی اس کہانی میں عمران خان پاکستان کے پہلے اور تنہا حکمران نہیں ہوں گے۔ یہ کہانی مختلف ادوار میں مختلف شخصیات کے ساتھ دہرائی جا چکی ہے۔ میاں نوازشریف کے خاندان کا تعلق امرتسر کے جاتی امرا گاؤں تھا۔ بھارت اور دیگر عالمی طاقتوں نے ماضی کے اس تعلق کو حکومت اور شخصی تعلق میں بدلنے کی کوشش کی۔ اس سے میاں نواز شریف اور بھارت کے حکمرانوں، سیاسی گھرانوں اور کچھ صنعت کاروں میں ایک دوستانہ اور خوش گوار تعلق تو پیدا ہوا اور سجن جندال جیسے دوست بھی ملے مگر اس کا بطور ریاست پاکستان کو فائدہ نہیں ہوا کیوں کہ بھارت نے اس ذاتی تعلق کو مسائل کے قالین تلے دبانے کے لیے استعمال کیا۔ اسی طرح جنرل مشرف کا تعلق پرانی دہلی سے تھا اور ان کا آبائی گھر نہروالی حویلی کے نام سے مشہور تھا۔ بھارت نے انہیں بھی نہروالی حویلی کے حوالے اور واسطے دے کر ایک ذاتی تعلق تو قائم کیا مگر دونوں ملکوں کے مسائل کا پہاڑ اپنی جگہ موجود رہا۔ اب عمران خان کے لیے ان کے ننھالی گاؤں بستی پٹھاناں اور کپل دیو جیسے دوستوں کا اثاثہ موجود ہے۔
عمران خان ماضی کے پاکستانی حکمرانوں کے مقابلے میں بھارت میں سب سے زیادہ تعلقات رکھنے والے حکمران ہوں گے۔ وہ ذاتی حیثیت میں نریندر مودی سمیت کئی بھارتی سیاست دانوں سے مل چکے ہیں۔ بالی ووڈ کے بہت سے اداکار اور اداکارائیں شوکت خانم اسپتال کے منصوبے میں چندہ جمع کرنے کی مہمات میں ان کے معاون رہے ہیں۔ انہیں بھی ذاتی تعلقات کے حوالوں سے بھارت کا دوست بنانے کی کوشش کی جائے گی مگر یہ عمل پائیدار نہیں ہوگا کیوں کہ وہی دوستی پائیدار رہتی ہے جو دو ریاستوں اور حکومتوں کے درمیان اور برسرعام ہو۔ معروف اور جانے پہچانے چینلوں کو نظر انداز کرکے بیک چینل اختیار کرنے سے شکوک جنم لیتے ہیں جو آگے چل کر فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے ماضی کے حوالوں سے دوستی کی ذاتی کمند ڈالنے کے بجائے کھلے دل سے مسائل پر بات کرنی چاہیے جس کا ذکر عمران خان اپنی تقریر کے بعد نریندر مودی کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں بھی کر چکے ہیں۔ جاتی امراء سے نہروالی حویلی تک بستی پٹھاناں کے لیے تاریخ کا سبق یہی ہے۔