بچوں کے ذہنی امراض ذہنی دبائو کا علاج

244

فوزیہ عباس

ذہنی دبائو کے علاج کے ضمن میں شدت و نوعیت کے حساب سے معالج؍ ماہر نفسیات مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں۔ اعصاب کو پرسکون کرنے والی دوائیں، ورزشیں، تھراپیز وغیرہ سے ذہنی دبائو؍ تنائو کو ختم؍ کم کیا جاتا ؍ جاسکتا ہے۔
ذہنی دباؤ کے شکار بچے کی مدد کیسے کریں؟
٭بچے/ بچی کی زندگی سے دبائو کا باعث بننے والے عوامل کو آہستہ آہستہ کم کریں۔
٭بچے/ بچی کی مدد کریں تاکہ وہ اپنے اندر موجود مثبت سوچ، صلاحیتوں اور مہارتوں کو استعمال میں لائے۔
٭بچے/ بچی کو ذہنی دبائو کم/ ختم کرنے کے طریقے سکھائیں۔
٭بچے/ بچی کے جذبات و احساسات کو سمجھیں، جب وہ پریشان، متفکر اور خوفزدہ ہو تو اس کو وقت دیں، اس سے پوچھیں کہ وہ کیوں پریشان ہے یا آپ خود اسے بتائیں کہ آپ کو وہ پریشان لگ رہا ہے۔ کیوں؟
٭بچے کے اندر اعتماد پیدا کریں، اسے بتائیں کہ غلطیاں کامیابی کی سیڑھی ہوتی ہیں، غلطیاں کرکے ہی سیکھا جاتا ہے۔
٭بچے/ بچی کے لیے معاون و مددگار بنیں، اسے اپنے جذبات و احساسات اور خیالات کے اظہار کا موقع دیں۔ اسے بتائیں کہ آپ اس کے ساتھ ہیں، اسے موقع دیں کہ وہ اپنی مشکلات/ مسائل کو خود دور کرے، راستہ نکالے، اس کو دور کرنے کے طریقے سوچے۔
٭بچے/ بچی سے شفقت و محبت کا اظہار کریں۔ اسے گلے سے لگائیں تحفظ کا احساس دلائیں۔
٭بچوں پر سختی نہ کریں۔ کسی بھی معاملے میں ان کے ساتھ ضد نہ لگائیں۔ ان کی کسی ضرورت/خواہش کو مشروط نہ کریں کہ پہلے وہ آپ کی بات مانیں پھر آپ اس کی بات سنیں/ مانیں گے۔ بچوں کو سکھائیں کہ مقابلہ بازی کے بجائے مل جل کر کام کرنا زیادہ سہل، پسندیدہ اور خوشگوار عمل ہوتا ہے۔
٭بچوں پر روزمرہ معمولات کا بہت زیادہ بوجھ نہ ڈالیں۔
٭جاننے کی کوشش کریں کہ آپ کا بچہ/ بچی / بچے آپ سے کیا چاہتے ہیں؟، صرف اپنی مرضی/ خواہشات ان پر مسلط نہ کریں۔
٭بچوں کے سامنے عمدہ مثال پیش کریں۔ کسی ناپسندیدہ فعل، بات، حرکت یا رویے پر خاموشی اختیار کریں اور مناسب انداز میں اپنی ناراضی یا غصہ ظاہر کرکے بچوں کو بھی اپنی خفگی، ناراضی، غصے کے اظہار کا مناسب طریقہ سکھائیں۔
٭بچوں کو اچھی اور بُری عادات کا فرق سمجھائیں، اچھے اور بُرے فعل کے نتائج بتائیں۔ مثلاً اگر وہ کوئی اچھا کام کرے تو اس کی تعریف کریں اور اگر وہ دوسرے بہن بھائی کا کھلونا توڑے تو اس کا کھلونا لے کر دوسرے بچے کو دے دیں۔
٭بچوں کو حقیقت اور تصوراتی دنیا/ زندگی کا فرق سمجھائیں۔ اسے بتائیں کہ ہمیشہ ویسا نہیں ہوتا جیسا ہم سوچتے یا چاہتے ہیں۔
٭بچوں کو گھر کے معاملات میں آزادی اور اپنی مرضی سے کام کرنے کا اختیار/ اجازت دیں۔ مثلاً وہ اپنے کمرے کی ترتیب و صفائی خود کرے، اپنی الماری خود سیٹ کرے، اپنا اسکول بیگ خود تیار کرے، مختلف گھریلو تقریبات میں اسے بھی تیاری میں شامل کریں۔ گپ شپ میں اس کو بھی شامل رکھیں۔
٭بچوں میں متوازن خوراک کھانے اور مثبت تعمیری صحت مندانہ طرزِ زندگی اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی کریں۔
٭بچوں کو موقع دیں کہ وہ ذہنی دبائو کے وقت کھل کر بات کریں۔ ہنسیں، روئیں اور اپنی پریشانی، غصہ، ناراضی، خوف وغیرہ کا کھل کر اظہار کریں۔
٭کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل فون اور وڈیو گیمز وغیرہ کا بڑھتا ہوا استعمال بچوں کے دماغ اور اعصاب کے لیے نقصان دہ ہے۔ ان کے مستقل استعمال سے گردن اور کندھوں کے پٹھوں میں کھنچائو/ تنائو/ درد اور ذہنی دبائو بڑھتا ہے۔ بچوں کو ان چیزوں کے استعمال/ ہر وقت استعمال سے روکیں۔
٭گھر/ اِردگرد کا پُرشور ماحول، اونچی آوازیں ذہنی دبائو بڑھانے کا سبب ہوتی ہیں۔ کوشش کریں کہ بچوں کے لیے ہی نہیں خود کے لیے بھی گھر کے ماحول کو پُرسکون اور خوشگوار رکھیں، اِردگرد کے شور کو کم کرنے کے لیے دن کے اوقات میں کھڑکیاں بند رکھیں۔
٭مختلف مواقع پر ہونے والی اسکول کی چھٹیوں/ گرمیوں اور سردیوں کی طویل چھٹیوں میں روٹین خراب ہونے اور کوئی مثبت مصروفیت نہ ہونے کے باعث بچے بوریت، اکتاہٹ اور ذہنی دبائو کا شکار ہو جاتے ہیں۔
٭ذہنی دبائو کو ختم/ کم کرنے کے لیے متاثرہ بچے/ بچی کو اس کیفیت سے نکالنے کے لیے گھمانے پھرانے لے جائیں۔ پارک میں جھولے لینا، چڑیا گھر میں جانوروں اور پرندوں وغیرہ کو دیکھنا یا پھر لانگ ڈرائیو پر جانا اور آئسکریم کھانا ایک خوشگوار سرگرمی ہے جو ذہنی دبائو ختم/ کم کرنے میں معاون ہوتی ہے۔
٭ماہرین کے مطابق ہنسنا/ قہقہے لگانا ذہنی دبائو کو ختم/ کم کرنے کی سب سے بہترین دوا ہے۔ اپنے بچوں کے سامنے نمونہ بنیں کہ آپ کی طرح وہ بھی روز مرہ زندگی/ معمولات میں مختلف پریشان کن مواقع/ ناپسندیدہ رویوں/ باتوں پر ہنس کر ان فکروں/ باتوں/ رویوں/ پریشانیوں کو نظرانداز کریں۔
٭بچوں کو تحفظ کا احساس دلائیں۔
٭بچوں کو ہر اس ٹی وی پروگرام/ خبروں/ نیوز کاسٹر کی آواز، کتاب، گیم اور میگزین/ تصویروں سے دور رکھیں جو ان کے اندر خوف، بے چینی، اضطراب اور ذہنی دبائو/ تنائو پیدا کرتا ہو۔
٭بچوں کو ناگہانی صورتحال سے نبٹنے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا سکھائیں۔
American Psychological Association کی تجاویز:
عموماً والدین/ اساتذہ/ دیگر بڑوں کو اندازہ نہیں ہوتا کہ کب ان کا بچہ/ بچی ذہنی دبائو/ تنائو کا شکار ہے۔ایسے میں بچوں کے رویے اور جذباتی کیفیات/ ردعمل پر غور کریں/ ان پر نظر رکھیں۔ یہ والدین کے لیے اس مشکل وقت میں بچے کی رہنمائی، مدد اور جذباتی تحفظ دینے میں معاون و مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
امریکن سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن نے والدین کی مدد اور رہنمائی کے لیے کچھ تجاویز مرتب کی ہیں جو متاثرہ بچے/ بچی کی اس کیفیت کو ختم/ کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔
٭چھوٹے بچوں کے لیے ذہنی دبائو/ تنائو کی حالت کو بیان کرنا/ اس کا احساس کرنا ایک مشکل امر ہے۔ چنانچہ بچے/بچی میں پیدا ہونے والی منفی تبدیلیوں مثلاً چڑ چڑے پن، موڈ کی خرابی، خوشی دینے والی سرگرمیوں سے کنارہ کشی، اسکول کے بارے میں تواتر سے شکایتیں کرنا، رونا، ڈرنا وغیرہ جیسی ابتدائی علاملات اس بات کا اظہار ہوتی ہیں کہ بچے/بچی کی زندگی میں کہیں کچھ غلط ہو رہا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ والدین ان ابتدائی علامات کو نظرانداز نہ کریں۔
٭بچوں میں ذہنی دبائو کی وجہ سے کچھ جسمانی علامات بھی پیدا ہوجاتی ہیں۔ مثلاً سردرد، پیٹ درد، بدہضمی وغیرہ۔ اگرچہ بچہ/بچی بار بار ایسی تکالیف کا اظہار کرے یا اسکول میں بار بار ڈاکٹر/ نرس کے پاس جائے یا ایسی علامات کا اظہار مخصوص حالات میں کرے جیسے کسی مشکل مضمون کے ٹیسٹ کی تیاری کے دوران میں تو اس کا مطلب ہے وہ کسی حد تک ذہنی دبائو/ تنائو میں مبتلا ہے۔
٭اپنے بچے/ بچی/ بچوں کی سماجی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔
٭بچے/بچی کے خیالات، عادات اور سرگرمیوں کے بارے میں ضرور آگاہ رہیں، ان کے دوستوں، ان کے والدین، اساتذہ، اسکول انتظامیہ، غیر نصابی سرگرمیوں کے ذمہ داران وغیرہ سے رابطے میں رہیں تاکہ بچے کی روزمرہ کارکردگی کا پتا چلتا رہے۔
٭چونکہ بچے عموماً لفظ ذہنی دبائو/ تنائو/ اسٹریس سے واقف نہیں ہوتے، نہ ہی اس مخصوص حالت و کیفیت کو بیان کرسکتے ہیں اس لیے اکثر وہ متبادل الفاظ میں اس کا اظہار کرتے ہیں۔ جیسے پریشانی، ناراضی، کنفیوژن وغیرہ۔ اسی طرح بعض اوقات بچے اپنے جذبات و احساسات/ خیالات کو بھی منفی انداز میں بیان کرتے ہیں جیسے مجھے کوئی بھی پسند نہیں کرتا، میں کسی کو اچھا نہیں لگتا، میں بے وقوف ہوں، کوئی بھی چیز مجھے خوشی نہیں دیتی، مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا… والدین کو چاہیے کہ بچے/ بچی کے ان الفاظ اور جملوں پر غور کریں، توجہ کریں، انہیں سنیں اور سمجھیں کہ آخر بچہ/ بچی ایسا کیوں کہہ رہا ہے؟ اپنے بچے/ بچی سے اس پر کھل کر باتیں کریں، کہیں یہ اسٹریس/ ذہنی دبائو کی علامات نہ ہوں۔
٭والدین، اساتذہ یا بچے خود سے ذہنی دبائو کو ختم/ کم نہیں کرسکتے۔ خصوصاً اس وقت جب وہ بار بار اور شدید نوعیت کا ہو… ایسے میں ضروری ہے کہ ماہر و مستند پیشہ ور ماہر نفسیات سے رجوع اور مشاورت کی جائے۔ ماہرین نفسیات تجربہ کار افراد ہوتے ہیں جو مختلف طریقوں سے مسئلے کے اسباب و عوامل، علامات وغیرہ کو جان کر اسے دور کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
٭بعض بچے کسی پسندیدہ سرگرمی کے دوران اپنی پریشانی، مسئلہ، حالت و کیفیت بیان کرنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں انہیں ایسا کرنے کا موقع دیں۔
٭ذہنی دبائو ختم/ کم کرنے کے لیے فوری اثر کرنے والی تدابیر اختیار کریں جیسے کوئی دلچسپ مزاحیہ کھیل کھیلنا، کوئی کارٹون یا مزاحیہ فلم دیکھنا، لطیفے، مزاحیہ کہانیاں اور نظمیں سنانا۔
٭کچھ بچے پریشانی، مشکل یا مسئلے میں مبتلا ہوں تو اپنے ماں یا باپ سے جذباتی تحفظ چاہتے ہیں گلے ملتے ہیں، ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ جاتے ہیں۔ کچھ دیر کے لیے بچے/ بچی کو بانہوں میں بھر کر خاموشی سے بیٹھ جائیں اس طرح آپ کے بچے کو ہی نہیں آپ کو بھی سکون ملے گا۔
٭بڑے بچے ذہنی دبائو، فکر، پریشانی کا باعث بننے والی چیزوں/ باتوں کو لکھیں جبکہ چھوٹے بچے اس دوران کوئی دلچسپ ڈرائنگ وغیرہ بنا کر اس کیفیت سے نکل سکتے ہیں۔
٭بچوں کے لیے مختلف پسندیدہ سرگرمیاں/ مشاغل بھی ذہنی دبائو ختم/ کم کرنے میں معاون رہتے ہیں۔ مثلاً باغبانی، دوسروں کی مدد کرنا، گھر کے کاموں میں مدد کرنا وغیرہ۔
٭بچے/ بچی/ بچوں کے ساتھ کھیلنا، پارک میں، گھر کے صحن یا لان یا چھت پر بھاگنا، چھپن چھپائی کھیلنا وغیرہ۔
٭15 منٹ کی واک خصوصاً جہاں درخت، سبزہ، پھول وغیرہ ہوں، قدرتی مناظر موڈ کو بحال کرنے میں بے حد موثر ہوتے ہیں، تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ لڑکیوں کے برعکس لڑکے قدرتی مناظر کے درمیان زیادہ اچھی طرح سے کھل کر اپنی پریشانیاں بیان کرتے ہیں۔
٭جسمانی مشقت کے کام، کھیل، سرگرمیاں مثلاً سائیکل چلانا، دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر فٹ بال، ہاکی وغیرہ کھیلنا، واک، ورزش کرنا، بچے کو فریش اور پُرسکون بناتا ہے اور بعض اوقات وہ خود کو مسئلے پر بات کرنے کے لیے تیار کرلیتا ہے۔
٭روزانہ چند منٹ کی ورزش کو معمول بنائیں جو بچے میں ذہنی دبائو کم کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہے۔
٭بچے کو پُرسکون رکھنے والی ورزش آپ بھی کروا سکتی ہیں
(i) بچے کو زمین پر، صوفے یا بستر پر آرام دہ انداز میں لٹائیں اور ہلکی آواز میں کہیں کہ وہ تصور کرے کہ ایک پُرسکون، خوبصورت ساحل پر ہے۔ نیلے آسمان پر سفید سفید بادل تیر رہے ہیں، نرم گرم ہوا اس کے چہرے کو چُھو رہی ہے۔
(ii) بچے سے کہیں خود کو ڈھیلا اور پُرسکون رکھے، گہرے گہرے سانس لے اور تصور کرے کہ آکسیجن سے بھری ہوئی تازہ ہوا سانس کے ساتھ اندر جارہی ہے اور سانس باہر نکالتے ہوئے سوچے کہ تمام ٹینشن، پریشانی وغیرہ سانس کے ساتھ باہر نکل رہی ہے اور وہ سکون محسوس کررہا ہے۔
٭یوگا کی ورزش، عبادت کرنا اور خوشبو سے علاج بھی مؤثر ثابت ہوتا ہے۔
٭مساج/ مالش بھی بچے کو پُرسکون کرنے میں مدد دیتا ہے۔ بچے/بچی کی گردن، کندھوں، بازوئوں اور ٹانگوں کا کسی تیل/ لوشن کے ساتھ نرم ہاتھوں سے مساج کرنا ایک شاندار طریقہ ہے پُرسکون کرنے اور پریشانیاں بھگانے کا۔