بھرپور زندگی کے لیے پرعزم ہوں

131

پارکنسن ایسا مرض نہیں جس میں زندگی کے معمولات متاثر ہوں

میں مالی طور پر مستحکم تھا، شادی بھی کامیاب تھی، گھر میں کوئی پریشانی نہیں تھی لیکن ان سب کے باوجودمیرے ذہن میں مایوسی کے خیالات آنے لگے۔یہ 2011ء کی بات ہے جب میں 29برس کا تھا،مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ میرے چلنے پھرنے میں کچھ فرق سا ہے،مجھے کچھ عجیب عجیب کا احساس ہورہا تھا جیسے میرے ساتھ کچھ غیرمعمولی ہو رہا ہو ،اس صورتحال نے مجھے تشویش میں مبتلا کردیا۔میںکئی ڈاکٹروں کو دکھاچکا تھامگر کوئی بیماری کی تشخیص نہیں کر سکا۔یہ صورتحال میرے لیے انتہائی پریشان کن تھی۔اسی دوران والد محترم نے مجھے ایک سائیکاٹرسٹ کے پاس بھیجا،اس سائکاٹرسٹ نے جو دوائیں تجویز کیں ان سے صحت میں بہتری ہونے کے بجائے میری حالت مزید خراب ہوگئی،حالت یہ تھی کہ دوقدم چلنا بھی دوبھر ہوگیاتھا، نوبت یہاں تک پہنچی کہ میں بیماری کو جادوکا اثرسمجھ کراس کا توڑ کر نے میں لگ گیا۔ایک سال تک میں اسی کیفیت میں رہا۔اس عرصے میں ،میں کیسے کیسے وہموںاور خدشات میں مبتلا رہا یہ میں ہی جانتا ہوں۔پھر اللہ رب العزت نے کرم کیااوربالآخر آغا خان اسپتال میں میری ملاقات معروف نیورولوجسٹ ڈاکٹر محمد واسع سے ہوئی،انہوں نے میرے مرض کی تشخیص کر ہی لی اور بتایا کہ یہ بیماری جس میں،میں مبتلا ہوں۔جن،بھوت کا سایہ یا دماغی خلل نہیں بلکہ پارکنسنز(رعشہ) ہے۔تب مجھے خیال آیا کہ جس مرض کا میں شکار ہوں اسی مرض کا شکار میری امی بھی ہیں لیکن ان کی علامات مختلف تھیں، جس کی وجہ سے تشخیص ہونے میں کافی وقت لگا۔اب جب بیماری کا پتاچل گیاتو پھردرست دوا کے استعمال سے صرف ڈیڑھ دن میں اتنا بہتر ہوگیا کہ بس کا سفرجو میرے لیے ممکن نہ رہا تھا ممکن ہوگیا اور میں آفس بس سے ہی آنے اور جانے لگا۔ڈاکٹر واسع نے مجھے مشورہ دیا کہ میں متوازن غذا لیتا رہوں،ورزش کو معمول بنائوںاور دوائوں کے استعمال میں پابندی کروں اسے ترک نہ کروں۔
آج پانچ سال ہوچکے ہیں، میں ایک صحت مندزندگی بسرکررہا ہوں، اپنی نوکری کے علاوہ ایک یونیورسٹی میں پڑھانے بھی جاتاہوں، بس اتنا ہے کہ مجھے اپناہرکام ایسے پلان کرنا پڑتا ہے کہ میں دوائی لے چکا ہوں اور اس کا اثرہونا شروع ہو گیا ہو، بچوں کے ساتھ کرکٹ بھی کھیل لیتاہوں، بازار سے سوداسلف بھی لے آتا ہوں، خود گاڑی بھی چلاتا ہوں، بچوں کو اسکول چھوڑ نے اور لینے جاتاہوں۔
اس بیماری نے میری productivityکم تو کی ہے لیکن ختم نہیں کی اور میں اپنی زندگی بھرپور طور پر انجوائے کرنے کے لیے پرعزم ہوں۔
جو لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں ان کو میری نصیحت یہ ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر ہمت نہ ہاریں بلکہ اپنی زندگی کو بھر پور انداز میں گزاریں اور یہ کہ دوائوں اور ٹائم مینجمنٹ کے ذریعے ایسی طرح نارمل زندگی گزاری جا سکتی ہے جیسے کہ دوسرے لوگ گزارتے ہیں۔