وفاق میں ایم کیو ایم کا پی ٹی آئی حکومت میں شامل ہونا مجبوری لگتا ہے

107

کراچی (تجزیہ: محمد انور) پاکستان تحریک انصاف کی ممکنہ حکومت کو بنتے دیکھ کر بچی کچھی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان ایک بار پھر مثبت توقعات کو لے کر وفاق کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرچکی ہے اس ضمن میں ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ حکومتی بینچوں پر بیٹھے گی۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہم سب کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں لہٰذا ہمارے مینڈیٹ کا بھی احترام کیا جائے۔ ایم کیو ایم کے رہنما کی اس بات سے ایسا تاثر مل رہا ہے کہ ایم کیو ایم کے پاس حکومت کا ساتھ دینے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ خالد مقبول صدیقی نے یہ بھی کہہ دیا کہ”سندھ میں پیپلز پارٹی کو کسی کی ضرورت نہیں”۔ خالد مقبول صدیقی کا یہ مؤقف اپنی جگہ لیکن پیپلز پارٹی نے واضح کردیا کہ اگر ایم کیو ایم نے وفاق کا ساتھ دیا تو اسے سندھ حکومت میں شامل نہیں کریں گے۔ کراچی کے شہریوں کو پہلے ہی سے یہ یقین تھا کہ ایم کیو ایم ماضی کے بیشتر ادوار کی طرح آئندہ بھی حکومت میں شامل ہوگی حالانکہ موجودہ ایم کیو ایم الطاف حسین کی گرفت سے آزاد ہے مگر باوجود اس کے وہ اپنے ووٹرز کے مینڈیٹ کے مطابق ان کو درپیش مسائل کے سدباب سے زیادہ اپنے معاملات کو بہتر بنانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ ایسا تاثر مل رہا ہے کہ ایم کیو ایم کے قومی اسمبلی میں جانے والے 4 اور سینیٹ میں موجود 4 اراکین کے ذریعے زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کرے ان مفادات میں کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں کے مسائل کا سدباب بھی ہوگا لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کراچی کو درپیش پانی، صفائی ستھرائی سمیت بیشتر مسائل کا تعلق سندھ حکومت سے ہے جو حکومت میں شامل ہوئے بغیر حل ہوگئے تو اس کا کریڈٹ پیپلز پارٹی کی آئندہ کی سندھ حکومت کو جائے گا جبکہ ایم کیو ایم کے وفاقی حکومت کی حمایت کرنے کی وجہ سے پیپلز پارٹی بلدیہ عظمٰی کراچی کو معطل کرکے یہاں ایڈمنسٹریٹر کا تقرر کرسکتی ہے جس کا سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت حکومت سندھ کو اختیار حاصل ہے۔ ساتھ ہی پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے بھی ایم کیو ایم کو وفاقی کابینہ میں نمائندگی دیے جانے کا کوئی امکان بھی نہیں ہے۔ اس بات کے خدشات اس لیے بھی نظر آرہے ہیں کہ ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی خود بھی کہہ چکے ہیں کہ انہیں وفاق کی حمایت کے عوض کچھ بھی نہیں چاہیے ماسوائے کراچی کے مفادات اور مینڈیٹ کا وہ خیال رکھیں۔ اس صورتحال سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ایم کیو ایم فی الحال صرف وزیراعظم کے انتخاب کے لیے عمران خان کو ووٹ دے کر سرکاری نشستوں پر بیٹھ جائے گی جس طرح 2013ء میں نواز شریف کو وزیراعظم بنانے کے لیے اس نے ووٹ دیا تھا لیکن چند ماہ یا ایک سال بعد یہ وفاقی حکومت پر کراچی کو درپیش مسائل کے سدباب کے لیے دباؤ ڈال کر اپوزیشن کی نشستوں میں بیٹھنے کی دھمکی دیں گے۔ بہرحال یہ بات طے ہے کہ ایم کیو ایم کے حکومت میں جانے یا نہ جانے سے شہریوں کو درپیش مسائل پر کسی قسم کا منفی یا مثبت اثر نہیں پڑے گا۔ ایسی صورت میں ایم کیو ایم کو ووٹ دینے والوں کی مایوسی فطری عمل ہوگا لیکن ووٹرز اب بھی یہ سوال کرنے پر حق بجانب ہوں گے کہ ایم کیو ایم نے کس قیمت پر یا کیوں حکومت میں جانے کا فیصلہ کیا ہے ؟۔