سندھ کے مگر مچھوں سے بیر

337

کراچی اور حیدر آباد کے عوام کی گردنوں پر کئی عشروں تک مسلط رہنے والی ایم کیو ایم کی اپنے مراکز میں شکست تو اس کی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے لیکن پھر بھی قومی اسمبلی کی چھ نشستیں اس کے ہاتھ لگ گئی ہیں۔ اب ان نشستوں کی سودے بازی ہورہی ہے۔ آخری اطلاعات کے مطابق یہ نشستیں پاکستان تحریک انصاف کی جھولی میں ڈالی جارہی ہیں۔ تحریک انصاف کو مرکز میں حکومت بنانے کے لیے ہر قسم کے لوگوں کی ضروت ہے خواہ وہ کیسے ہوں اور ماضی قریب و بعید میں ان کے بارے میں عمران خان کی رائے کچھ بھی رہی ہو۔ مثلاً ایم کیو ایم کے بارے میں بارہا کہا گیا کہ وہ بھتا مافیا، قاتل اور لٹیروں کی جماعت ہے، لیکن حکومت بنانے کے لیے ایم کیو ایم کو گلے لگایا جارہاہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی بھی یہی کرتی رہی ہے اور جب بھی ایم کیو ایم شراکت اقتدار کو لات مار کر باہر آئی رحمان ملک کے ذریعے اسے منالیا گیا اور وہ اسی تنخواہ پر کام کرتی رہی۔ یہ ڈاکٹر فاروق ستار ہی تھے جنہوں نے کہاتھا کہ پیپلزپارٹی نے پیٹھ میں خنجر اتارا ہے لیکن دونوں نے یہ بات بھلادی اب عمران خان نے بھی یہی کرلیا تو تعجب کیا ہے۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف کی بنائی ہوئی قائد اعظم مسلم لیگ کا معاملہ ہے کہ وہ بھی پنجاب میں تحریک انصاف کو کاندھا دے رہی ہے۔ ق لیگ کے رہنما چودھری پرویز الٰہی نے عمران خان کو تعاون کا یقین دلایا ہے۔ یہ وہی چودھری پرویز الٰہی ہیں کہ جب وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو عمران خان نے ان کو ڈاکو قرار دیا تھا۔ سیاسی لوٹ مار میں ڈاکوؤں کی ضرورت تو پڑتی ہی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی اپنے اقتدار کی خاطر ایک آمر پرویز مشرف کے ایسے مداح تھے کہ اعلان فرمایا ہم جنرل پرویز کو وردی میں 10 بار صدر منتخب کریں گے۔ لیکن جنرل پرویز اپنی وردی اتار کر خود ہی فرار ہوگئے، چودھری پرویز الٰہی بے سہارا رہ گئے۔ ویسے تو عمران خان نے بھی ایک آمر کا ساتھ دیا تھا اور پرویز مشرف کی ڈنڈے کے زور پر صدارت کے لیے ان کو ووٹ دیا تھا۔ جواب میں جنرل صاحب نے عمران خان کو اپنے کتوں میں سے ایک عنایت کردیا تھا۔ ایسا لین دین تو چلتا ہی رہتا ہے۔ ایم کیو ایم نے سندھ حکومت کے بجائے مرکز میں عمران خان کی متوقع حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو یہ اس کا حق ہے اور اس کے عوامل و عواقب کا اندازہ بھی کرلیا ہوگا۔ پیپلزپارٹی نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ وہ سندھ میں کسی کے تعاون کے بغیر اکیلے حکومت بناسکتی ہے اور اگر ایم کیو ایم تحریک انصاف کے ساتھ جارہی ہے تو ہم سے کوئی توقع نہ رکھے، پیپلزپارٹی کو کسی کی ضرورت نہیں۔ اس کے جواب میں ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے بھی کہہ دیا کہ پی پی کو ہماری ضرورت نہیں تو ہم بھی چلے پی ٹی آئی کے ساتھ۔ ایم کیو ایم نے حزب اختلاف کی طرف سے کل جماعتی کانفرنس میں شرکت سے بھی انکار کردیا۔ عمران خان ایم کیو ایم اور اس کے بانی الطاف حسین کے بارے میں اتنے مشتعل تھے کہ الطاف حسین کے خلاف ثبوتوں کا پلندہ لے کر لندن جارہے تھے۔ پھر کیا ہوا، یہ معلوم نہیں ہوسکا۔ اس ماضی کو دھونے کے لیے پی ٹی آئی کے رہنما عارف علوی نے فرمایاہے کہ ’’آج کی ایم کیو ایم ہمارے لیے قابل قبول ہے‘‘۔ کیا وہ وضاحت کریں گے کہ آج کی ایم کیو ایم میں کیا تبدیلی آئی ہے، سوائے اس کے کہ اس کے دانت نکال دیے گئے۔ لیکن اب تو این آر او کے تحت جو جرائم معاف کیے گئے تھے ان کا ریکارڈ بھی کھل رہا ہے اور اس کا سب سے بڑا فائدہ ایم کیو ایم نے اٹھایا تھا۔ مئی 2007 کا معاملہ بھی عدالت میں ہے۔ تو کیا عمران خان اس حوالے سے اپنے نئے شریک کے لیے کچھ آسانیاں فراہم کرسکیں گے اور کیا قانون، انصاف کے دعوؤں پر عمل کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ خود ایم کیو ایم کی قیادت کو یہ تو معلوم ہو ہی گیا ہوگا کہ کراچی سے پی ٹی آئی کی غیر متوقع کامیابی میں ایم کیو ایم کے ناراض کارکنوں کا بڑا حصہ ہے جو ایم کیو ایم کی کارکردگی سے مایوس ہوچکے ہیں اور اب ان پر الطاف مافیا کا جبر بھی نہیں رہا۔ اسی طرح ایم کیو ایم کو جو ووٹ پڑے ہیں وہ پی ٹی آئی مخالف ووٹ ہیں لیکن ان کا مینڈیٹ پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈالا جارہاہے۔ ایم کیو ایم کے یوسف بے کارواں ڈاکٹر فاروق ستار فرماتے ہیں کہ پارٹی کے لیے یہ بڑا سنہرا موقع ہے کہ تحریک انصاف کا ساتھ دے کر کراچی کی خدمت کی جائے اور شہر اور شہریوں کو درپیش مسائل حل کیے جائیں، یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ وفاقی حکومت (پی ٹی آئی) کراچی کے مسائل کے حل میں دلچسپی لے رہی ہے۔ کاش یہ کام گزشتہ 30 برس میں خود ایم کیو ایم نے کیا ہوتا لیکن اسے تو منزل نہیں رہنما درکار تھا اور منزل ملی نہ رہنما۔ سوچنے کی بات ہے کہ کراچی سمیت صوبہ سندھ پر حکومت پیپلزپارٹی کی ہوگی تو تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کیا کرسکے گی۔ وفاقی حکومت سے ایم کیو ایم کے مطالبات ہیں کہ بلدیاتی قوانین میں تبدیلی کی جائے، گورنر سندھ کے انتخاب میں ایم کیو ایم کو اعتماد میں لیا جائے اور ایم کیو ایم کے دفاتر کھلوائے جائیں۔ اسے کراچی اور حیدر آباد کے بلدیاتی اداروں کے لیے زیادہ فنڈز اور اختیارات بھی درکار ہیں۔ ایم کیو ایم کے خلاف اہدافی آپریشن بھی بند کرانے کا مطالبہ ہے لیکن سندھ کی حکومت ان مطالبات کی منظوری میں رکاوٹ بنے گی اور اسلام آباد میں بیٹھی حکومت شاید کچھ نہ کرسکے۔ سندھ کے دریا میں رہ کر مگرمچھوں سے بیر لینے میں کراچی اور اس کے شہریوں کو نہ پہلے فائدہ ہوا اور نہ آئندہ اس کی امید کی جاسکتی ہے۔