بھارت سے دوستی اور مسئلہ کشمیر

290

عمران خان کو جہاں پوری دُنیا سے مبارک باد کے پیغامات موصول ہورہے ہیں وہیں مقبوضہ کشمیر کی حریت قیادت نے بھی انہیں مبارک باد دی ہے، ان کے وزیراعظم پاکستان بننے کا خیر مقدم کیا ہے اور مسئلہ کشمیر پر بھارت کو مذاکرات پیش کش کو سراہا ہے۔ بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے عمران خان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ وہ پاکستان کے لیے ترقی و استحکام کا باعث بنیں گے اور ان کی قیادت میں مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی راہ ہموار ہوگی۔ حریت لیڈر میر واعظ عمر فاروق نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ بھارت کو عمران خان کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کی پیش کش بلا تاخیر قبول کرلینی چاہیے کہ اس مسئلے کے حل کا مذاکرات کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ عمران خان مقبوضہ کشمیر ہی نہیں پورے بھارت میں ایک ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں۔ کھیلوں کی دُنیا ہو یا بھارت کی شوبز کی دنیا ان میں عمران خان کے چاہنے والوں کی کمی نہیں، ان لوگوں نے کپتان کو سیاست کا ’’پاکستان کپ‘‘ جیتنے پر پُرجوش مبارک باد دی ہے اور اس بات پر جشن منایا ہے کہ ان کا ہیرو کرکٹر پاکستان کا وزیراعظم بن گیا ہے۔ عمران خان اپنی کرکٹ کے دوران اور سیاست میں آنے کے بعد بھی کثرت سے بھارت آتے جاتے رہے ہیں۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ انہوں نے ایک دورے میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے بھی ملاقات کی تھی اور بھارتی میڈیا میں اس کا خوب چرچا ہوا تھا۔ اب الیکشن میں کامیابی پر بھارتی وزیراعظم نے عمران خان کو براہ راست ٹیلی فون کرکے مبارک باد دی ہے اور نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کے آغاز کے لیے تیار ہیں اور معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے دونوں ملکوں کو مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ عمران خان نے جواب میں بھارتی وزیراعظم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ بات چیت کے ذریعے تنازعات کے حل کی تدبیر کی جانی چاہیے، انہوں نے کہا کہ جنگوں اور خونریزی سے تنازعات حل نہیں ہوتے بلکہ اس سے المیے جنم لیتے ہیں اور ہمیں ان سے بچنا چاہیے۔ عمران مودی ٹیلی فونک بات چیت سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت پاکستان کے بدلے ہوئے حالات کو اپنے انداز میں دیکھ رہا ہے اور مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرکے پاکستان سے دوستی کی پینگیں بڑھانا چاہتا ہے۔
کیا یہ ممکن ہوسکے گا کہ مسئلہ کشمیر کو سردخانے میں ڈال دیا جائے، مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارت کے مظالم کو نظر انداز کردیا جائے اور بھارت سے دوستانہ تعلقات کو اولیت دی جائے۔ سابقہ پاکستانی حکومتوں کی یہی پالیسی رہی ہے لیکن انہیں منہ کی کھانی پڑی ہے۔ سابق صدر آصف زرداری نے اقتدار سنبھالتے ہی کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو 20 سال کے لیے منجمد کردیا جائے اور بھارت کے ساتھ تجارتی و ثقافتی تعلقات بڑھانے پر توجہ دی جائے لیکن جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم بڑھے اور عالمی سطح پر ان کا چرچا ہوا تو پیپلز پارٹی کی حکومت کو بھی خاموشی توڑنا پڑی اور دفتر خارجہ نے کشمیر پر مضبوط موقف اختیار کیا۔ میاں نواز شریف نے 2013ء کے انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالا تو انہوں نے آتے ہی یہ پروپیگنڈا شروع کردیا کہ انہیں عوام نے بھارت سے دوستی کا مینڈیٹ دیا ہے۔ یہ پروپیگنڈا انتہائی غلط اور گمراہ کن تھا، انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بھارت سے دوستی کا ایشو ہی نہیں چھیڑا تھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں نواز شریف کو شرکت کی دعوت ملی تو وہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیے بغیر نئی دہلی جا پہنچے اور تقریب میں شرکت کے بعد پاکستان ہائی کمیشن میں ملاقات کے منتظر کشمیری لیڈروں کو نظر انداز کرکے اپنے کاروباری ہندو دوستوں سے ملاقاتیں کرتے رہے، اس طرح انہوں نے پہلے ہی مرحلے میں واضح کردیا کہ انہیں کشمیریوں سے زیادہ بھارت سے دوستی عزیز ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنی 4 سالہ وزارتِ عظمیٰ میں مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرکے قدم قدم پر بھارت نوازی کا مظاہرہ کیا۔ نریندر مودی سے ذاتی دوستی گانٹھی، اسے نواسی کی شادی پر جاتی امرا بلایا اور تحفے تحائف وصول کیے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں یہ کرپشن کی بدترین مثال تھی جس سے کشمیر کاز کو شدید نقصان پہنچا اور پاکستان کا موقف کمزور ہوا۔
اب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان وزیراعظم بننے والے ہیں۔ بھارت میں ان کے دوستوں کا حلقہ میاں نواز شریف کی نسبت بہت وسیع ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے انہیں ٹیلی فون پر مبارک باد دی ہے اور مل کر چلنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ عمران خان انہیں اپنی تقریب حلف برداری میں مدعو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ ساری باتیں اچھی ہیں، بھارت کے ساتھ دوستی میں بہت کشش ہے اس کے ساتھ دوستی ہونی چاہیے لیکن مسئلہ کشمیر کے بدلے نہیں۔ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے پاکستان کی بقا وابستہ ہے، اس کا پانی کا بحران حل ہوسکتا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان جو پراکسی وار جاری ہے وہ ختم ہوسکتی ہے اور خطے میں پائدار امن قائم ہوسکتا ہے۔ پھر اس پُرامن ماحول میں دونوں ملک باہمی تعاون سے اپنے عوام کی حالت بہتر بنانے کے لیے بہت کچھ کرسکتے ہیں جس کا ذِکر عمران خان نے بھارتی وزیراعظم سے بات چیت میں کیا ہے۔ اس وقت مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل سے بھی زیادہ توجہ طلب مسئلہ کشمیریوں کے تحفظ کا ہے جن پر بھارتی فوج نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ ان کی نسل کشی کی جارہی ہے اور اب بھارتی حکومت مقبوضہ ریاست کی مخصوص آئینی حیثیت ختم کرکے وہاں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا چاہتی ہے، اس
سلسلے میں بھارتی سپریم کورٹ میں ایک درخواست زیر سماعت ہے جس میں مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر سے متعلق آئین کے آرٹیکل 35-A کو کالعدم کرنے کی استدعا کی گئی ہے، اگر سپریم کورٹ اس درخواست کے حق میں فیصلہ دے دیتی ہے تو ریاست کی خصوصی حیثیت ختم ہوجائے گی اور ہندو آبادی اس پر یلغار کردے گی، اس طرح مسلم آبادی کا تناسب تبدیل ہو کر رہ جائے گا۔ کشمیری مسلمان اس ممکنہ عدالتی جارحیت کے خلاف احتجاج اور مزاحمت تو کریں گے لیکن انہیں پاکستان کی سفارتی و سیاسی حمایت بھی درکار ہوگی اور پاکستان کی نومنتخب حکومت کو اس سلسلے میں فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان کی پارلیمانی کشمیر کمیٹی گزشتہ 10 سال سے غیر فعال رہی ہے اس کا احیا اور اس کی قیادت کشمیر کاز سے کمٹنٹ رکھنے والے کسی مستعد رکن اسمبلی کے سپرد کرنا بھی ضروری ہے، اس وقت فوری ضرورت مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ہے جو بھارتی جارحیت کے سبب شدید خطرے سے دوچار ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال سے متعلق اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے پاکستان کے لیے ایک بنیاد فراہم کردی ہے وہ اس کے ذریعے مسئلہ کشمیر پر عالمی برادری کو متحرک کرسکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے جارحانہ سفارت کاری کی ضرورت ہے، بھارت سے دوستی کی باتیں بہت اچھی ہیں لیکن مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کی موجودہ حالتِ زار کو نظر انداز کرکے اسے پروان نہیں چڑھایا جاسکتا۔ عمران خان کو اپنا منصب سنبھالتے ہی اس پر مضبوط موقف اختیار کرنا چاہیے تا کہ وہ کشمیری قیادت کی توقعات پر پورا اُتر سکیں۔