توہین عدالت کا تیسرا مجرم

204

مسلم لیگ ن کی ایک اور وکٹ گر گئی لیکن یہ وکٹ ماضی کے کھلاڑی عمران خان نے نہیں گرائی جو برسوں سے یہ دعویٰ کررہے تھے کہ ایک گیند پر کئی وکٹیں اڑادوں گا۔ یہ وکٹ عدالت کے حکم پر گرائی گئی ہے اور عدالت عظمیٰ نے سابق وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری کو بھی توہین عدالت کے جرم میں 5 سال کے لیے نا اہل قرار دے دیا۔ انہیں تا برخاست عدالت قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی دی گئی ہے۔ اس سے قبل ن لیگ ہی کے نہال ہاشمی اور دانیال عزیز کو توہین عدالت پر سزائیں ہوچکی ہیں۔ طلال چودھری کے حوالے سے معزز ججوں نے اپنے فیصلے میں کہاہے کہ عدالت عظمیٰ کا یہ بینچ متفق اور مطمئن ہے کہ ملزم طلال چودھری نے آئین کی شق 204 کے تحت توہین عدالت کا ارتکاب کیا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ طلال چودھری اپنے مربی میاں نواز شریف کی حمایت میں خود بھی بے قابو ہوگئے تھے۔ ایک جلسے میں انہوں نے کہاکہ خانہ کعبہ میں جو بت رکھے ہوئے تھے انہیں تو وہاں سے نکال دیا لیکن عدالت عظمیٰ میں بیٹھے ہوئے پی سی او کے بت بھی نکالنے کی ضرورت ہے۔ بات یہ ہے کہ کچھ ادارے ’’مقدس‘‘ قرار دے دیے گئے ہیں ان کے خلاف زبان کھولنے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دیے جانے کے بعد ہر کہ و مہ اٹھ کر عدلیہ اور ججوں کی توہین کرنا باعث فخر سمجھنے لگا تھا۔ عدالتیں اگر بے توقیر ہوگئیں تو یہ بڑا المیہ ہوگا۔ توہین عدالت پر تیسری سیاسی شخصیت کو سزا ملنے پر ممکن ہے کہ یہ سلسلہ تھم جائے۔ لیکن اس ضمن میں عمران خان کے ماضی کے کچھ بیانات کا جائزہ بھی لیا جائے جن میں عدلیہ پر الزام تراشی کی گئی تھی۔ یہ تاثر نہیں بننا چاہیے کہ معزز ترین عدلیہ صرف ن لیگ ہی کے ارکان کو سزائیں سنارہی ہے۔ طلال چودھری نے فیصلے کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہاہے کہ ن لیگ انتخابات سے پہلے قابل قبول تھی نہ انتخابات کے بعد۔ ایسے وقت میں جب حکومت سازی کا عمل چل رہا ہو اس قسم کے فیصلے اس عمل کو متاثر کریں گے۔ انہوں نے بھی یہی موقف دہرایا کہ اہلیت اور نا اہلی کے فیصلے عوام پر چھوڑ دیے جائیں کیونکہ جب یہ فیصلے ادارے کرتے ہیں تو وہ متنازع ہوجاتے ہیں۔ توہین عدالت کے مقدمات میں عموماً معافی مانگ لینے پر معاف کردیا جاتا ہے۔ نہال ہاشمی نے توہین عدالت پر ایک ماہ کی قید کاٹنے کے بعد باہر نکل کر پھر توہین عدالت کا ارتکاب کیا مگر عدالت کے نوٹس لینے پر معافی مانگ لی۔ انہیں معاف کردیاگیا۔ اب سیاسی رہنماؤں کو منہ کھولنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لینا چاہیے جس کی عادت انہیں رہی نہیں۔ عدالتوں کے فیصلوں پر تو اعتراض کیا جاسکتا ہے اور ایسا ہوتا بھی ہے۔ وکیل صفائی کا کام یہی ہے اور ماتحت عدالت کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے سائلین بڑی عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں تو یہ توہین عدالت نہیں ہوتی لیکن عدالتیں ہوں یا جج صاحبان، ان سے اختلاف تہذیب کے دائرے میں ہونا چاہیے۔ انہیں خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں سے تشبیہ دے کر نکالنے کی بات کرنا مناسب نہیں اگر ہر شخص رہنما کہلانے والے افراد سے ایسی رہنمائی لینے لگے تو معاشرہ مزید افرا تفری کا شکار ہوجائے گا۔