کرپشن راج تو جاری رہے گا

396

پاکستان میں خرابیوں کے سبب تک تو سب ہی پہنچ چکے اور سب بالاتفاق کرپشن کو الزام دیتے ہیں اسی بنیاد پر ماضی کی کئی حکومتیں اقتدار سے محروم ہوئیں لیکن آنے والوں نے وہی کام کیا۔ یہی نعرہ تھا جس نے عمران خان کی تحریک انصاف کو مقبولیت دی اور وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس جناب جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی یہی کہا ہے کہ اس ملک سے کرپشن راج ختم کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد سے اس ملک میں کرپشن کا راج ہے۔ اس مسئلے کا حل کیا ہو؟ چیف جسٹس کرپشن ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں۔ پاکستانی عوام بھی یہی چاہتے ہیں اور بہت سی پارٹیاں بھی اسی کی جد وجہد کررہی ہیں لیکن ایسا کیوں ہورہا ہے کہ ملک کے عوام عدالت عظمیٰ، سیاسی جماعتیں اور دیگر ادارے بھی کرپشن ختم کرنا چاہتے ہیں۔ نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر وغیرہ معاملات سلجھانے کے لیے بہت سے اقدامات کررہے ہیں۔ لیکن کرپشن ہے کہ ختم ہی نہیں ہوتی۔ اس کا سبب ہے اور بہت اہم سبب ہے۔ وہ یہ ہے کہ کرپشن کو سب ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے اقدامات وہ نہیں جن سے کرپشن ختم ہوجائے۔ عوام کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ان کے پاس کیا اختیار ہے؟ تو عرض ہے کہ ان کے پاس جو اختیار تھا انہوں نے 25 جولائی کو وہ استعمال کرلیا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہمارے عوام خود تجزیہ کرنے کی صلاحیت کے معاملے میں ابھی تک کمزور ہیں۔ انہیں میڈیا کے ذریعے جو اچھا دکھایا جاتا ہے وہ اسے اچھا سمجھتے ہیں اور جو برا دکھایا جارہاہے عوام اسے برا سمجھنے لگتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام دھوکا کھاجاتے ہیں اور غلط لوگوں کو ووٹ دے بیٹھتے ہیں۔ دوسرا نمبر ان انتخابات کے موقع پر الیکشن کمیشن کا تھا جسے تاریخ میں پہلی مرتبہ بے پناہ اختیارات ملے ہیں اور انتخابی اخراجات کی مد21ارب روپے بھی جب کہ الیکشن کمیشن کو امیدواروں سے زر ضمانت کی مد میں بھی کروڑوں روپے ملے، بہت سوں کی ضمانت ضبط ہوئی ہے اور اسی طرح مختلف مراحل پر الیکشن کمیشن کو بھاری رقوم ملتی رہی ہیں۔ صرف ووٹر کے پولنگ اسٹیشن کی نشاندہی کے نظام پر اسے کروڑہا روپے ملے۔ لیکن جواباً الیکشن کمیشن کرپشن سے پاک انتخابات نہیں کراسکا۔ اس کے نظام اور اس کے عملے اور نتائج کے اعلان میں بہت گڑ بڑ رہی۔ اور اگر ایماندارانہ طور پر دیکھا جائے تو مجموعی طور پر انتخابی نتائج ایسے تھے کہ ان کے غیر جانبدارانہ تجزیے کے نتیجے میں بڑا فرق پڑسکتا ہے۔ ان انتخابات میں کرپشن کے خاتمے کے بڑے دعویداروں میں عمران خان تھے لیکن انہوں نے اپنی کامیابی کے لیے ایک بڑی غلطی کی۔ زیادہ سے زیادہ ریجیکٹ ایبلز کو سلیکٹ ایبلز کے نام پر اپنی پارٹی میں شامل کرلیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان میں گزشتہ حکومتوں میں کرپشن کا سبب بننے والوں کی بڑی تعداد ایک بار پھر اسمبلیوں میں پہنچ گئی۔ جو لوگ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں میں کرپشن کا سبب تھے یا ان کے دور حکومت میں کرپشن کے نظام کا حصہ تھے وہی اب پی ٹی آئی کا حصہ بن گئے ہیں۔ کرپشن ختم کرنے کے دعویدار کپتان اگر حکومت بنالیتے ہیں تو ان کے لیے سب سے بڑا بوجھ یہی لوگ ہوں گے جو دوسری پارٹیوں سے آئے ہیں۔ ان کا بھاری وزن سنبھالنے اور ان کو ناراض کیے بغیر اپنے ساتھ ملانے کا کام وہ کیسے کریں گے۔ یہ کام کب تک جہانگیر ترین کرتے رہیں گے کہ لوگوں کو پکڑ پکڑ کر جمع کرتے رہیں اور کوئی اجر نہیں لیں۔ آخر ان کی محنت کا کوئی تو صلہ ملے گا۔ یہ ان کی نا اہلی کے خاتمے کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے اور ان کے کاروبار کے لیے راستے کھلے رکھنے کے ذریعے بھی کیا جاسکتا ہے۔ بہر حال یہ کپتان کا بڑا امتحان ہے کہ کرپٹ لوگوں کو ا پنی صفوں میں شامل رکھ کر کس طرح کرپشن کا خاتمہ کرتے ہیں۔ ہر لمحے میں تو چلی میکے والے انداز میں پارٹیاں اتحاد چھوڑنے کی دھمکیاں دیں گی۔ جواباً کسی نہ کسی کرپشن کے دروازے کھولنے پڑیں گے۔ ہمارے چیف جسٹس کرپشن کے خلاف بہت بڑے بڑے فیصلے کررہے ہیں۔ معمولی ڈاکٹروں سے لے کر وزیراعظم تک کسی کو نہیں بخشا سب کے خلاف کارروائی کی ہے۔ لیکن نتیجہ وہی صفر۔ ان کی یہ کارروائیاں تو دو سال سے جاری تھیں ایک سال سے نواز شریف کے خلاف فیصلے کے بعد سے تو رفتار اور قلم دونوں زیادہ تیز ہوگئے ہیں لیکن اتنی زبردست مہم کے باوجود اسمبلیوں میں پرانی پارٹی چھوڑ کر نئی پارٹی میں پناہ لے کر حکمران گروپ میں شامل ہونے کے عمل کو نہیں روکا جاسکا تو پھر کرپشن راج کون روکے گا۔ اس حوالے سے چیف صاحب کو بار بار توجہ دلائی گئی کہ جناب پاناما میں صرف شریف خاندان ملوث نہیں ہے دیگر 6 سو سے زائد لوگ بھی ملوث ہیں۔ لیکن عدلیہ، نیب اور ایف آئی اے کا سارا زور شریف خاندان کے خلاف کارروائیوں پر تھا۔ اتنی زیادہ کارروائیاں کرنے کے باوجود نواز لیگ 64 نشستیں جیت گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کارروائیاں نہ ہوتیں تو یہ تعداد 90 یا 100 سے زیادہ ہوتی۔ واضح رہے کہ میڈیا بھی ان کے خلاف ہی تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر نواز حکومت کرپٹ لوگوں پر مشتمل تھی تو اسے اور کرپٹ لوگوں کو ناکام ہوجانا چاہیے تھا لیکن انتخابات میں نواز لیگ کے باغی چودھری نثار بھی ہار گئے اور معمولی کارکن جیت گئے۔ عدالت بھی اگر صرف ایک پارٹی کو نشانہ بنانے کے عمل کے بجائے سب کو تحقیقات کے دائرے میں لے آتی تو کرپشن کے خلاف کارروائی کا تاثر بھی اچھا پڑتا۔ آج کل آصف زرداری اور فریال تالپور کے خلاف کارروائی کا الٹا تاثر لیا جارہاہے۔ کرپشن کے الزامات سے قطع نظر یہ کہا جارہاہے کہ یہ سب صرف اس لیے ہورہاہے کہ زرداری صاحب ن لیگ سے قریب ہورہے تھے انہیں اور ان کی بہن فریال تالپور کو عارضی رعایت بھی اسی لیے دی گئی تھی کہ وہ ن لیگ کے قریب جاکر پی ٹی آئی کو حکومت بنانے سے روک نہ دیں۔ اب آنے والے دنوں میں پتا چل جائے گا کہ زرداری صاحب کے خلاف کارروائی اصلی ہے یا انہیں مسلم لیگ سے دور رکھنے اور پی ٹی آئی کو حکومت سازی کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے تھی۔ بہر حال کرپشن سے نجات کی خواہش سب کو ہے لیکن اس کے لیے نیم دلانہ کوششیں۔ یہ کھلا اور بنیادی تضاد ہے تو پھر کرپشن راج جاری رہے گا۔