اہل محبت!

166

کالا باغ ڈیم سیاست کاروں کی ہوس زر اور انا کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ شنید ہے کالا باغ کی مخالفت کرنے والوں کو انتہائی معقول معاوضہ ملتا ہے، حالاں کہ اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت ملکی سلامتی اور قومی خوشحالی کی مخالفت ہے۔ یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ اپنے بینک بیلنس بڑھانے اور اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے وطن عزیز کو کربلا بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔ صاحبان سیاست کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ وطن عزیز میں پانی کی قلت ہوگی تو ان کا خاندان بھی ’’پانی پانی‘‘ چلائے گا، مگر اہل محبت کو آنے والی مشکلات کا احساس ہوگیا ہے اور انور شعور کا یہ شعر پیش گوئی کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔جو صاحبان سیاست نہ کرسکے قائمکریں گے اہل محبت سلطنتچیف جسٹس آف پاکستان محترم ثاقب نثار کا فرمان ہے کہ ان کی زندگی کا مقصد ڈیم بنانے اور غیر ملکی قرضے سے ملک و قوم کو نجات دلانا ہے، چیف صاحب! نے بھاشا اور مہمند ڈیم بنانے کے لیے فنڈ قائم کردیا ہے ان کی اپیل پر قوم نے عطیات دینے کا آغاز کردیا ہے۔ گویا اب ڈیم قوم اپنی مدد آپ کے تحت بنائے گی، مشکل یہ ہے کہ عوام اس بوجھ کو اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے۔ فوج، عدلیہ اور دیگر سرکاری محکموں کے ملازمین نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق عطیات جمع کرانا شروع کردیے ہیں مگر محنت کش طبقہ عطیات دینے کی استطاعت نہیں رکھتا سو، ڈیموں کی تعمیر ممکن نہیں، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے حکمران اور بیورو کریٹ طبقے نے سرچارج وصول کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ نیلم جہلم سرچارج کے بعد بھاشا اور مہمند ڈیمز کے نام پر سرچارج وصول کرنا عوام سے زیادتی نہیں، سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جو صنعت کار اور سیاست کار قومی خزانے سے قرض لے کر معاف کراچکے ہیں ان سے قرضہ وصول کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ آخر سارا بوجھ عوام ہی پر کیوں ڈالا جاتا ہے۔ ہم چیف صاحب سے یہ گزارش کرنے کی جسارت کرنا چاہیں گے کہ اگر وہ جلد از جلد ڈیموں کی تعمیر چاہتے ہیں تو عدالتوں میں مدتوں سے انصاف کے منتظر مقدمات کی فوری طور پر انصاف دلانے کی ترغیب دے کر منہ مانگا فنڈ وصول کرسکتے ہیں، اگر ہماری تجویز کو پزیرائی بخشی گئی تو بہت سے لوگوں کو ذہنی اذیت سے نجات مل جائے گی اور بہت سا فنڈ بھی وصول ہوجائے گا۔ عزت مآب چیف جسٹس آف اسلامی جمہوریہ پاکستان ثاقب نثار صاحب کیا خیال ہے۔ آپ کا بیچ اس مسئلہ کے۔ علاوہ ازیں اہل ثروت سے بھی ان کی استطاعت کے مطابق فنڈ لیا جاسکتا ہے، تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان قوم! قوم! کا ورد کرتے نہیں تھکتے مگر ڈیموں کے لیے عطیات لینے سے صاف منکر ہوگئے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ وہ عطیات وصول کرتے کرتے تھک چکے ہیں سو، اب وہ عطیات وصول نہیں کریں گے حالاں کہ وہ اپنی جماعت کے لیے عطیات وصول کرتے وقت کبھی تھکن کا شکار نہ ہوئے۔ امید ہے اس ڈیم کے لیے عطیات کی وصولی تھکن کا باعث نہیں ہوگی کیوں کہ انتخابی نتائج کے بعد ان کا لب و لہجہ خاصا شائستہ اور مہذب ہوگیا ہے۔ ان کی جھنجھلاہٹ، چہچہاہٹ میں تبدیل ہوتی جارہی ہے اور یہ ایک نیک شگون اور اچھی تبدیلی ہے سو، یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ڈیم فنڈ میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
لوگوں کا یہ سوچنا قابل توجہ ہے کہ ایدھی زندہ ہوتے تو وہ ڈیم کے لیے عطیات جمع کرنے میں کوئی تھکاوٹ محسوس نہیں کرتے۔ ہم نے کالم کا آخری جملہ لکھا ہی تھا کہ ہمارے پاس بیٹھے بزرگ نے کہا یہ بھی لکھو کہ اگر ایک ماہ کے اندر مجھے میری جائداد پر قبضہ دلایا گیا تو میں چیف صاحب کے فنڈ میں پچاس ہزار روپے عطیہ دوں گا۔ بزرگ کے دو مکانوں اور پانچ دکانوں پر ان کے سوتیلے بھائیوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ پندرہ بیس برسوں سے عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔ مدعی عدالتوں کی بے ساکھی کے سہارے اپیل اپیل کھیل رہا ہے۔ عرصہ پانچ برسوں سے مقدمہ ہائی کورٹ بہاولپور میں زیر سماعت ہے مگر ہر پیشی پر لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسا دیا جاتا ہے۔ آخری پیشی 3-5-18 کی تھی اب پیشی کب ہوگی اور لیفٹ اوور کا ہتھوڑا کب برسے گا اس کے بارے میں صرف سوچا ہی جاسکتا ہے کہ اندھے کنویں میں جھانکنا خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔