انتخابات کے بعد

223

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستوری تقاضے کے تحت پاکستان کے قومی انتخابات 25جولائی کو منعقد ہوگئے ہیں اور انتخابات کے دن بالعموم کوئی دہشت گردی، فساد، قتل وغارت اور سیاسی جماعتوں میں تصادم کا واقعہ نہیں ہوا، اس پر پوری قوم کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ماقبل انتخابات رونما ہونے والے امور اور انتخابی عمل کا حُسن وقُبح اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے، تاہم مابعد انتخابات جو حکایات، شکایات اور الزامات ہیں، اُن کا تمام فریقوں کے اطمینان کے مطابق ازالہ مناسب ہے، ورنہ یہ کشمکش پورے عمل کو مشتبہ بنادے گی۔ کسی چیز کا آئینی اور قانونی طور پر نافذ ومؤثر ہوجانا اُس کے مبنی بر حق ہونے کی دلیل نہیں ہوتا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے فی الواقع کسی کو عمداً قتل کیا اور اقرارِ جرم یا شہادتیں نہ ہونے کے سبب وہ عدالت سے باعزت بری ہوگیا، تو اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ قتل ہوا ہی نہیں یا وہ حقیقت میں قاتل نہیں ہے، اس دنیا کی عدالتوں کے بعد ایک حقیقی اور قطعی عدالت اللہ تعالیٰ کی ہوگی اور وہاں معاملات کا فیصلہ حقیقت اور نفس الامر کے مطابق ہوگا، وہاں کوئی مکر وفریب، حیل وحجت، باطل توجیہ اور تاویل کام نہیں آئے گی۔  25جولائی کو منعقدہ انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کو پختون خوا میں غالب اکثریت حاصل ہوگئی ہے اور وفاق اور پنجاب میں وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ یہ تو نہیں ہے کہ وفاق اور پنجاب کی سطح پر وہ بھاری اکثریت سے جیت گئے ہیں، جسے انگریزی میں Overwhelming Majority کہتے ہیں یا انہوں نے Sweep کرلیا ہے اور جھاڑو پھیر کر سب کا صفایا کردیا ہے۔ تاہم چوں کہ ہمارا سیاسی کلچر مرکز اقتدار کی طرف جھکاؤ کا ہے، لہٰذا تمام یا اکثر آزاد ارکان اور پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی اکثر چھوٹی جماعتیں مرکزِ اقتدار سے جُڑ جائیں گی، جنابِ عمران خان بآسانی وزیر اعظم منتخب ہوجائیں گے اور پنجاب بھی اُنہی کے اقتدار سے فیض یاب ہوگا۔ باقی نمبر گیم کی کہانیاں وزنِ شعر کے لیے ہوتی ہیں، میڈیا کی ضرورت ہوتی ہے کہ تجسس پیدا کریں، ناظرین کو اپنی اسکرین کے ساتھ جوڑے رکھیں، اُن میں ایک طرح کا سسپنس پیدا کریں کہ اگلے لمحے کیا ہوگا، سو پیشگی خبر یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ جنابِ عمران خان کی قربت حاصل کرنے کے لیے جہانگیر ترین صاحب اور دیگر حضرات اپنا شکار ایک ایک کرکے لاتے رہیں گے تاکہ منظر پر نمایاں رہیں، تصویروں میں آئیں اور اپنے قائد کی آشیر باد حاصل کریں، ورنہ درحقیقت یہ کچھ بھی نہ کریں، تب بھی سب بکھرے ہوئے دانے ایک ایک کر کے ازخود جنابِ خان کی جھولی میں آگریں گے۔ انتخابی بندوبست میں اس امر کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ جنابِ عمران خان اپنے آپ کو مطلق العنان اور بلاشرکتِ غیرے اقتدار پر قابض ومالک نہ سمجھیں، بلکہ حدود میں رہتے ہوئے اپنا کام جاری رکھیں اور اپنے پیش رو کا انجام سامنے رکھیں۔  عمران خان کی خوش نصیبی ہے کہ بیش تر لکھاری اور ٹیلی ویژن چینل گزشتہ پانچ سال سے بوجوہ اُن پر واری ہوتے رہے، جو ایک آدھ سرکش تھا، وہ بھی سرنگوں ہوگیا، اب میڈیا کی آزادی کی حدود اُس کی سمجھ میں اچھی طرح آگئی ہیں، اسی لیے تو علامہ اقبال نے کہا تھا: دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم سو میڈیا کے نام نہاد نظریاتی مراکز کو شکم کا پیغام سمجھنے میں نہ زیادہ دیر لگی اور نہ کوئی مشکل پیش آئی۔ صرف ایک مسئلہ درپیش رہے گا کہ جب سب کا قبلۂ ترجیحات ایک ہی قرار پایا، تو اب وہ پیشہ ورانہ مسابقت کے لیے کون سا عنوان تلاش کر یں گے۔ سابق حکمرانوں کے دامن کے داغ اجاگر کرنے کا کاروبار کب تک سکۂ رائج الوقت رہے گا، اس صورت میں اسکرین کی رونقیں ماند پڑ سکتی ہیں اور ایک ہی طرح کی موسیقی سنتے سنتے گاہکوں کا ذوقِ سماعت پژمردہ ہوسکتا ہے، اُن کا اضطراب ماند پڑ سکتا ہے، سو اِس کے لیے انہیں نئی جہتوں کو تلاش کرنا ہوگا اور اپنی فنی مہارت کے لیے کسی اور بحرِ عمیق میں غواصی کی مشقِ جانکاہ کرنی پڑے گی، کچھ عرصہ دوسروں کو ملامت کرنے، اُن کی بے بصیرتی کی نشاندہی اور اپنی بصیرت کا جشن منانے میں گزارا جاسکتا ہے۔
اگر ہمارے ہاں انتخابات ترکی اور جرمنی کی طرح مُتَناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوتے، تو نوزائیدہ مذہبی سیاسی جماعت ’’تحریکِ لبیک پاکستان‘‘ کو اچھی خاصی نمائندگی مل جاتی، لیکن امیدواروں کے براہِ راست چناؤ پر مبنی نظامِ انتخاب کے باعث وہ اپنے استحقاق سے محروم رہیں گے اور اُن کے حامی ووٹروں کی آواز اقتدار کے ایوانوں میں سنائی نہیں دے گی۔ حاصل کردہ ووٹوں کے اعتبار سے تحریکِ لبیک پاکستان سیاسی جماعتوں میں چوتھے نمبر پر ہے، متحدہ مجلس عمل کے مجموعی ووٹ اگرچہ تحریکِ لبیک پاکستان سے زیادہ ہیں، لیکن وہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے، جماعتِ واحدہ نہیں ہے۔ پنجاب میں تحریکِ لبیک پاکستان حاصل کردہ ووٹوں کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر اور سندھ میں پانچویں نمبر پر ہے، بادی النظر میں ایک نوزائیدہ جماعت کے لیے یہ بڑی کامیابی ہے۔ الیکشن کمیشن نے وفاق اور صوبوں میں آزاد امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کا مجموعہ بھی اپنی فہرست میں ڈالا ہے، لیکن وہ متفرق لوگ ہیں، اس لیے اُن کا تقابل سیاسی جماعتوں سے کرنا درست نہیں ہے۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے سیاسی جماعتوں میں سے کسی ایک پر اعتماد کرنے کے بجائے منتشر اور بے لگام لوگوں پر اعتماد کیا ہے، پس اِسے بحیثیت مجموعی سیاسی جماعتوں کی ناکامی قرار دیا جاسکتا ہے کہ اُن میں سے کوئی جماعت بھی ان رائے دہندگان کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی یا بعض جگہ شخصی اثرات اتنے غالب ہیں کہ لوگوں کے لیے اُن کے حصار سے نکلنا مشکل ہے یا بعض اشخاص اتنے مقبولِ عام ہیں کہ منشور سے بے نیاز ہوکر لوگ اُن سے آس لگا بیٹھتے ہیں، یہ جماعتی سیاست پر مبنی جمہوریت کے لیے ایک اچھی علامت نہیں ہے۔  یہ معاملہ امریکی صدارتی انتخاب کی طرح ہے کہ اگر کسی ریاست میں جیتنے والے صدارتی امیدوار کے مقابلے میں مخالف امیدوار ایک ووٹ سے بھی ہار جائے، تو اُس کے حق میں ڈالے گئے سارے ووٹ نظام میں بے توقیر اور ساکن وساکت بلکہ ساقط ہوجاتے ہیں اور اس ریاست کے سارے الیکٹرل ووٹ جیتنے والے امیدوار کو مل جاتے ہیں۔ پس تجربے سے معلوم ہوا کہ کسی نہ کسی درجے میں نمائندگی مل جانے اور مکمل محرومی سے بچ جانے کی ایک صورت متناسب نمائندگی پر مبنی انتخابات ہیں۔ لمحۂ موجود میں جمہوریت کا ستم یہ ہے کہ ایک ووٹ سے بھی ہارنے والے جمہور کو بے آواز کردیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اُن کے لیے صرف سڑکوں پر آکر احتجاج کا راستہ باقی رہ جاتا ہے، جو نظام کے لیے صحت مند اور مثبت علامت نہیں ہے۔ وفاق میں وزارتِ عُظمیٰ اور صوبۂ پنجاب میں وزارتِ عُلیا کے حصول کی دوڑ میں شکست کے باوجود مسلم لیگ ن نے ایک موثر حزبِ اختلاف کی طاقت حاصل کرلی ہے، ان کے دو نعرے تھے: ’’ووٹ کو عزت دو، خدمت کو ووٹ دو‘‘، معلوم نہیں کہ اُن کے حق میں جو ووٹ پڑا ہے، وہ محض خدمت کا صلہ ہے یا اس میں جنابِ نواز شریف کی جیل یاترا اور عزیمت کا بھی دخل ہے، یہ ہمارا شعبہ نہیں ہے، سیاسی تجزیہ کاروں کی فکری تگ وتاز کا میدان ہے، ہم تو طفلِ مکتب ہیں۔ ملک کو درپیش گمبھیر مسائل کا ذکر ہم گزشتہ کالموں میں کرتے آئے ہیں، یہ مسائل جنابِ عمران خان کے استقبال کے لیے تیار کھڑے ہیں، یہ اُن کی ذاتی و جماعتی تدبر وفراست، بصیرت، ژرف نگاہی اور مختلف شعبوں میں مہارت کا کڑا امتحان ہے کہ وہ ان سے کیسے سرخرو ہوتے ہیں، معاشی استحکام کے مُقَفَّل دروازوں کو کھولنے کے لیے کلید کہاں سے اور کیسے تلاش کرتے ہیں۔ ہماری دعائیں اُن کے ساتھ ہیں، کیوں کہ یہ صرف اُن کی ذات یا جماعت کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ پورے ملک کی بقا، استحکام وسا لمیت اور قومی وقار کا مسئلہ ہے، پس قومی مفاد کو ہر چیز سے بالا تر سمجھنا چاہیے۔ لہٰذا انفرادی، گروہی اور جماعتی اختلافات کے باوجود قومی مفاد میں اختیار کیے ہوئے اقدامات کی غیر مشروط حمایت کی جانی چاہیے۔ عمران خان کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ ماضی میں کرکٹ ہیرو ہونے کے اعتبار سے ان کی شخصیت عالمی سطح پر متعارف ہے اور قومی زبان کے علاوہ عالمی رابطے اور ڈپلومیسی کی زبان انگریزی میں بھی انہیں اظہارِ مافی الضمیرکی کما حقہٗ صلاحیت حاصل ہے۔ نگراں حکومت کے دور میں ڈالرکے مقابلے میں روزانہ کے اعتبار سے روپے کی قدر گرتی رہی اور اب قدرے سنبھل رہی ہے، جب معیشت کے کسی شعبے میں اتار چڑھاؤ انتہائی سُرعتِ رفتار کے ساتھ غیر فطری انداز میں ہو تو اُس میں کہیں نہ کہیں سٹے بازی کا عمل دخل ضرور ہوتا ہے، ملک کے مفاد میں اس کے ذمے داروں کا تعین کر کے محاسبہ ضرور ہونا چاہیے، کیوں کہ اس کے ذریعے ایک دن میں کسی کے لاکھوں روپے ڈوب جاتے ہیں اور کسی کی تجوریاں بھر جاتی ہیں۔ لیکن کسی نئی حکومت کے لیے سرمایہ داری کے گہرے سمندر کے بڑے بڑے مگرمچھوں سے تصادم مول لینا آسان نہیں ہے، اس لیے شاید ایسا نہ ہوپائے اور نہ کبھی ہوا ہے۔ ہمارے جمہوری نظام میں سیاسی حکمرانوں، منتخب قیادت اور مقتدرہ کے درمیان تعلق اور شرکتِ اقتدار کے حوالے سے معزول وزیر اعظم نواز شریف صاحب کچھ سوالات چھوڑ کر گئے ہیں، عمران خان جب اقتدار کے سمندر میں غوطہ زنی کریں گے، اپنی مَن پسند یا جماعتی ترجیحات کے مطابق پالیسیاں اور ترجیحات طے کرنا چاہیں گے، تو انہیں بھی ان سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا، خواہ وہ اُس کا اظہار کریں یا اپنے اقتدار کو تلاطم خیز موجوں سے بچانے کے لیے صبر واستقامت کا مظاہرہ کریں۔ اپنے پیش رو کی طرح ان کے مزاج میں بھی بہر حال ایک گونہ خود اعتمادی ہے، کسی حد تک خود سری ہے اور ایک فائٹنگ اسپورٹس مین کی طرح ٹکراؤ کا تجربہ بھی ہے، اسی لیے تو کہا جاتا ہے: ’’جن کے رتبے ہیں سوا، اُن کو سوا مشکل ہے‘‘۔ ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ اُن کی مشکلات کو آسان فرمائے۔

نوٹ: برطانیہ کے شہر برمنگھم کی جامع مسجد گھمکول شریف میں 29جولائی کو ’’تحفظِ ناموسِ رسالت‘‘ کے عنوان سے ’’بائیسویں سالانہ انٹرنیشنل سنی کانفرنس‘‘ کا انعقاد ہوا، مجھے اُس میں مہمانِ خصوصی کے طور پر شرکت کرنی تھی، اس لیے میں 25جولائی کو برطانیہ روانہ ہوا، 31جولائی کو واپس کراچی پہنچا اور بدھ کی صبح یہ سطور رقم کی ہیں۔