جھوٹ پر مجبور کرنے والے انتخابی قوانین

256

الیکشن کمیشن نے انتخابی امیدواروں سے انتخابی اخراجات کے گوشوارے طلب کیے اس کے پاس بیشتر ارکان اسمبلی کی جانب سے انتخابی اخراجات کے گوشوارے آگئے ہیں ایک خبر کے مطابق قومی اسمبلی کے 269 اراکین نے پنجاب اسمبلی کے 295، سندھ اسمبلی کے 129، بلوچستان کے 49اور کے پی کے اسمبلی کے 97 ارکان نے انتخابی اخراجات کی تفصیل سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کردیا ہے۔ اب الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں سے 29 اگست تک ان کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔ الیکشن کمیشن کا کہناہے کہ انتخابی قوانین کے مطابق سیاسی جماعتیں اپنی سالانہ آمدن، اخراجات، فنڈز کے ذرائع، اثاثے اور واجبات کی تفصیل فراہم کرنے کی پابند ہیں۔ یہ خبر سن کر اور پڑھ کر اچھا لگتا ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن کوئی اخبار، کوئی تاریخ دان ہمیں یہ بتادے کہ اس سے فرق کیا پڑتا ہے۔ ہمیں تو یاد نہیں کہ اخراجات کی حد سے زیادہ اخراجات کرنے پر کسی پارٹی یا رہنما کے خلاف سخت کارروائی ہوئی ہو۔ کبھی کبھار نمائشی نوٹس جاری ہوجاتے ہیں اور ان کا نمائشی جواب دے دیا جاتا ہے۔ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ ایک ایک حلقے پر کئی کئی کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن جب انتخابی اخراجات کی تفصیل جمع کرائی جاتی ہے تو بڑی بڑی سیاسی جماعتیں اور ارب پتی امیدوار انتخابی اخراجات کی حد کے مطابق حساب جمع کراتے ہیں اور الیکشن کمیشن انہیں قبول کرلیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کام کیوں کیا جاتا ہے جب کہ الیکشن کمیشن، سیاسی جماعت اور امیدوار اور عوام اور میڈیا سب جانتے ہیں کہ حقیقت یہ نہیں۔
حالیہ انتخابات میں ہم نے بہت سے امیدواروں کی مہم دیکھی اگر ان کے بینرز، پینافلیکس، کیمپس، گاڑیاں، اشتہارات اور کارکنوں پر اخراجات دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ایک عام پارٹی کے مجموعی اخراجات بھی اس کے سامنے ہیچ ہیں۔ اگر پی ٹی آئی کی مخالفت نہ سمجھا جائے تو اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تنہا جہانگیر ترین کے انتخابی اخراجات سیکڑوں ارکان اسمبلی کے انتخابی اخراجات کی حد سے کئی گنا زیادہ تھے۔ جہانگیر ترین کے انتخابی اخراجات کا مطلب پی ٹی آئی کے لیے وہ جو کچھ خرچ کررہے تھے وہ ان کے انتخابی اخراجات ہی تو ہیں۔ اس کے علاوہ انتخابات کے بعد انہوں نے جو خرچ کیا وہ کس کھاتے ہیں جائیں گے۔ کیا الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے پی ٹی آئی سے کوئی باز پرس کی؟ظاہری بات ہے کہ یہ انتخابی قوانین کے دائرے میں نہیں آتا۔ ہماری نظر میں تو یہ انتخابی قانون سرے سے بے معنی ہے جو صرف جھوٹے حلف نامے، جھوٹے کاغذات،جعلی رسیدیں اور جعلی حسابات بنانے پر مجبور کرتا ہے۔ ہمارے چیف جسٹس کرپشن راج ختم کرانا چاہتے ہیں تو ایسے قوانین کو ختم کرائیں جو اسمبلی میں آنے سے قبل ہی سیاسی رہنما اور سیاسی پارٹی کو دو نمبر حلف نامے داخل کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ ایسا وبال ہے کہ کچھ بھی کرلیں سادگی سے انتخاب لڑنے والے رضاکاروں کے بل پر انتخابی میدان میں اترنے والے امیدوار اور پارٹیاں بھی ان اخراجات کی حد عبور کرجاتے ہیں۔ پھر اس حد میں رہنے کے لیے جعل سازی پر مجبور ہوجاتے ہیں اس کام میں کوئی استثنا نہیں ہے۔ صاف ستھری بات کرنے والے بھی یہ کام کرنے پر مجبور ہیں۔
ایک اور قانون اثاثوں کے حوالے سے ہے ان کی مالیت کا قانون، یہ بات الیکشن کمیشن سمیت ہر کوئی جانتا ہے کہ جائداد کی قیمت، خرید و فروخت کے وقت کچھ اور ہوتی ہے اور رجسٹرار کے پاس رجسٹریشن کے وقت کچھ اور ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج کل کئی رہنماؤں کے بارے میں سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس اور واٹس ایپ وغیرہ پر مہم چل رہی ہے کہ اتنے مہنگے علاقے میں محض 29 لاکھ کا بنگلا، کلینک کی مالیت اتنی کم۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ مالیت کم اسی لیے ہے کہ جو چیز ایک کروڑ میں خریدی یا فروخت کی جاتی ہے رجسٹرار کے دفتر میں اس کی مالیت بارہ پندرہ لاکھ سے زیادہ ظاہر نہیں کی جاتی اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ 29 لاکھ کا مطلب تین چار کروڑ روپے ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن بھی اسے 29 لاکھ کو تسلیم کرتا ہے اور تمام ادارے بھی۔ حالانکہ اگر یہ گوشوارہ جمع کرانے والے سے کہا جائے کہ 29 لاکھ کی جائداد 68 لاکھ میں دے دو تو وہ ہرگز نہیں دے گا۔ البتہ ایک امیدوار جو اب کامیاب بھی ہوچکے ہیں ان کے سونے کی مالیت بہر حال وضاحت طلب ہے۔ ان کے وکیلوں نے سونے کی مالیت کا بھی یہی نصاب بنالیا ہوگا جو جائداد کا بتایا جاتا ہے۔ آج کل تو ہر رکن اور امیدوار کو ٹیکس فائلر بھی بنادیا گیا ہے ٹیکس فائلر کی کوئی چیز ایف بی آر سے چھپی ہوئی نہیں ہے تو پھر انتخابی قوانین کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق بنانے کے لیے حکومت ایف بی آر کے ذخیرے سے مدد لے۔ جہاں ہر ایک کا کھاتا کھلا ہوا ہے۔ اگر کوئی صاحب اپنی جائداد کی مالیت دس کروڑ بتاتے ہیں تو ایف بی آر کے پاس بھی یہی مالیت لکھی ہونی چاہیے۔ اسی طرح جب ان کی اسمبلی کی مدت پوری ہوجائے یا سال گزرجائے تو ایف بی آر کو چاہیے کہ ہر رکن اسمبلی کی جائداد کی تفصیل الیکشن کمیشن کو اور قومی اسمبلی کو جاری کردے جو اپنی اپنی ویب سائٹ پر یہ تفصیل ڈال دے۔ پھر جس کو حساب لینا ہے وہ لے لے۔ لیکن جھوٹے حلف ناموں کا قانون تو کرپشن کی بنیاد ہے۔ جب رکن اسمبلی بننے سے پہلے جھوٹ بولنا، جھوٹا حساب داخل کرنا ہر ایک کی مجبوری ہوگی تو وہ اسمبلی میں بھی یہی کرے گا۔یہ صورتحال کرپشن راج کو تقویت دینے کا سبب بنے گی جس کا خاتمہ سب چاہتے ہیں۔