سب ہی سوگئے تھے

315

انتخابی عمل میں شریک افراد، نمائندے، پولنگ ایجنٹس وغیرہ اور پورے عمل کا جائزہ لینے والے صحافی حضرات تو جو کچھ کہتے رہے ہیں وہ جستہ جستہ ذرائع ابلاغ میں آہی گیا ہے لیکن پاکستان کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ انہوں نے گزشتہ منگل کو ایک مقدمے کی سماعت کے دوران میں اپنا تجربہ بیان کیا کہ انہوں نے تین بار چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ شاید سورہے تھے، انہوں نے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیں الیکشن کمیشن کیسے چل رہا ہے۔ ہمارے پاس مقدمات آئے تو دیکھیں گے کیا کرنا ہے۔ انتخابات کے دن صرف چیف الیکشن کمشنر ہی نہیں سو رہے تھے بلکہ پورا الیکشن کمیشن یا تو سوگیا تھا یا سب افسران غنودگی میں تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمے داریاں دوسروں کو سونپ کر الغرض ہوگیا تھا کہ ’’تو دانی حساب کم و بیش را‘‘۔ لیکن الیکشن کمیشن اپنی مرضی سے تو اپنے فرائض سے دستبردار نہیں ہوا ہوگا۔ چیف جسٹس صاحب کو اس دن کسی اور سے رابطہ کرنا چاہیے تھا۔ چیف الیکشن کمشنر کے پاس جب کرنے کو کچھ نہیں ہوگا تو ظاہر ہے کہ وہ سو ہی گئے ہوں گے اور اپنا ٹیلی فون بھی بند کردیا ہوگا کہ کوئی آرام میں مخل نہ ہو۔ اس کی شکایت کئی انتخابی امیدواروں نے بھی کی ہے جنہوں نے کسی بھی قسم کی بے ضابطگی کی اطلاع الیکشن کمیشن کے کسی افسر کو دینے کی کوشش کی۔ یا تو رابطہ نہیں ہوا یا ٹرخادیاگیا۔ چیف جسٹس پاکستان کا کہناہے کہ ’’اچھا بھلا انتخابی عمل جاری تھا لیکن الیکشن کمیشن نے مہربانی فرمادی، اس روز تو ان کا سسٹم ہی نہیں چل رہا تھا۔‘‘ اب یہ بات راز تو نہیں رہی کہ ’’مہربانی‘‘ کس نے فرمائی اورانتقال نتائج کا نظام (آر ٹی ایس) بیٹھ گیا یا کسی نے بٹھادیا۔ پونے بارہ بجے تک تو ٹھیک چل رہا تھا۔ آر ٹی ایس کیسے بند ہوگیا، اس کی تحقیقات ہوگئی تو دلچسپ انکشافات سامنے آئیں گے۔ انتخابی عمل کی شفافیت کے ثبوت روزانہ ہی کچرے کے ڈھیر سے برآمد ہورہے ہیں۔ انتخابات اس حد تک ضرور شفاف تھے کہ رائے دہندگان کو عمومی طور پر کوئی شکایت نہیں۔ انہوں نے بڑے اطمینان سے ووٹ ڈالا اور کہیں سے دھاندلی کی ایسی شکایات نہیں ملیں جو ماضی میں عام تھیں کہیں کہیں ووٹنگ کے عمل کو سست رکھا گیا اور طویل انتظار سے اکتاکر ووٹر واپس چلے گئے۔ شام چھ بجے تک سب کچھ ٹھیک رہا لیکن اصل کھیل اس کے بعد ہوا ہے۔ کئی بزرگ ووٹرز یہ سمجھتے ہیں کہ دھاندلی کا الزام غلط ہے اور جو یہ الزام لگارہے ہیں وہ مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی کے طرفدار ہیں۔ ان بھولے بھالے لوگوں کو ذرا بھی اندازہ نہیں کہ شام چھ بجے کے بعد کیا کھیل کھیلا گیا۔ پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال کر اندر کیا ہوتا رہا اب یہ سب کچھ سامنے آرہا ہے۔ بیرون ملک بیٹھے ہوئے کئی پاکستانیوں نے اپنی جان پہچان کے پریزائیڈنگ افسروں سے رابطہ کرکے انتخابات کے حوالے سے معلوم کیا تو یہی جواب ملا کہ انتخابات ہر طرح سے صاف شفاف تھے اور افواج پاکستان کے جوانوں نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ پریزائیڈنگ افسران ہوں، ریٹرننگ افسران ہوں یا الیکشن کمیشن کے چیف سمیت کوئی بھی عہدیدار ہو، وہ یہی کہے گا کہ انتخابات صاف شفاف اور مثالی تھے۔ اصل حقائق ریٹائرمنٹ کے بعد ہی سامنے آتے ہیں۔ پہلے سچ بول کر کون مصیبت مول لے گا۔ یہاں تو چیف جسٹس تک ریٹائر ہونے کے بعد سچ بولتے ہیں۔ جہاں تک فوجی جوانوں کے کردار کی بات ہے تو بلا شبہ انہوں نے اپنا کام بھرپور طریقے سے کیا اور ووٹوں کی گنتی کا بار بھی اٹھالیا بلکہ وہ بوجھ اٹھائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔ کسی پولنگ ایجنٹ نے اعتراض کیا تو اسے باہر کا راستہ دکھادیا گیا۔ قوم کے وسیع تر مفاد میں یہ بھی ضروری تھا۔ کراچی سے تحریک انصاف نے 14 نشستیں جیتی ہیں اور ایسے ایسے لوگ منتخب ہوگئے جن کا نام بھی اہل کراچی کے علم میں نہیں تھا۔ اس ’’عظیم‘‘ کامیابی پر تحریک انصاف کے امیدوار خود بھی سکتے میں ہیں۔ جن لوگوں کے پولنگ بوتھوں پر ان کے حامیوں کا ایسا رش تھا کہ ان کی کامیابی یقینی نظر آرہی تھی، نتیجہ آیا تو وہ ہار چکے تھے۔ ایک اور تما شا یہ ہوا کہ ملتان سے انتخاب لڑنے والے شاہ محمود قریشی نے، جو اب تحریک انصاف کے بڑے رہنما ہیں، ڈیڑھ لاکھ سے زائد ووٹ لیے۔ ان کے مخالفین نے بھی 60،70 ہزار ووٹ تو لے لیے ہوں گے۔ گویا دو لاکھ سے اوپر ہی ووٹ ہوں گے صرف دو گھنٹے میں یہ ووٹ گن لیے گئے اور شاہ محمود کی کامیابی کا ’’غیر سرکاری‘‘ نتیجہ مشتہر کردیاگیا۔ یہ چابک دستی قابل تعریف ہے لیکن کراچی جیسے میٹروپولیٹن شہر میں نتائج 26 گھنٹے بعد بھی سامنے نہیں آئے۔ بہر حال تحریک انصاف کو یہ جیت مبارک ہو۔ اس طرح ایک طرف تو دو پارٹیوں کی اجارہ داری ختم ہوگئی اور دوسری طرف کراچی و حیدر آباد سے ایم کیو ایم کا تسلط ختم ہوا۔