ناصر حسنی
عزت مآب چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کا فرمان ہے کہ زیر التوا لاکھوں مقدمات سائلین کو منہ چڑھا رہے ہیں۔ گستاخی معاف! زیر التوا مقدمات سائلین کو منہ نہیں چڑا رہے ہیں، انصاف عدل پر منہ بنارہے ہیں۔ قابل غور امر یہ بھی ہے کہ لاکھوں مقدمات زیر التوا کیوں ہیں؟۔ سائلین کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے پیشی در پیشی اور اپیل در اپیل کا ابلیسی چکر کون چلا رہا ہے؟۔ اس ابلیست کو ختم کرنا کس کی ذمے داری ہے؟۔ نظام عدل کی اصلاح کرنا کس کا فرض ہے؟۔ انصاف کی فوری فراہمی کی راہ میں کون حائل ہے؟۔
چیف صاحب کا یہ استفسار بھی توجہ طلب ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے۔ گونگا، بہرا کیسے ہوگیا!!!۔ چیف صاحب! قانون اندھا نہیں ہوتا، اندھا انصاف فراہم کرنے والا ہوتا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ وکلا کی قانونی موشگافیاں اسے گونگا اور بہرہ بنادیتی ہیں۔ چیف صاحب! کے استفسار پر قیاس کے گھوڑے دوڑائے جائیں تو سارا عدالتی نظام ہی گرد و غبار کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔
جب کوئی سائل قابض کے خلاف فریاد لے کر عدالت جاتا ہے تو وکیل کی خدمات حاصل کرنے کے لیے اسے وکیل کی خدمت میں حاضر ہونا پڑتا ہے اور وکیل صاحب یہ کہہ کر اسے مایوس کردیتے ہیں کہ قبضہ سچا دعویٰ جھوٹا حالاں کہ یہ ایک انتہائی نامعقول رویہ ہے کیوں کہ سائل کی جائداد پر قابض کی پوزیشن کو مضبوط قرار دینا حق دار کی دل آزاری ہے کیوں کہ دکان، مکان اور زمین پر تو کرائے دار قابض ہوتا ہے اور کرایہ ادا کرنا اس کی اخلاقی اور قانونی ذمے داری ہے۔ حق دار اتنا بے بس اور مجبور کیوں ہوتا ہے کہ وہ اپنا حق لینے کے لیے عدالتوں کے دھکے کھاتے کھاتے مرجاتا ہے اور پھر اس کی اولاد عدالتوں میں ذلیل و خوار ہوتی ہے۔
چیف صاحب! نے قوم سے استدعا کی ہے کہ ان کے حق میں دعا کرے کہ ڈیمز بنانے میں خدا کامرانی سے ہمکنار کرے۔ چیف کا خیال ہے کہ بڑی قوتیں ڈیمز بنانے کی راہ میں حائل ہیں مگر یہ ادھورا سچ ہے کیوں کہ اصل رکاوٹ ہمارے نام نہاد سیاست دان ہیں وہ بڑی قوتوں کے آلہ کار بن کر اپنا بینک بیلنس بڑھا رہے ہیں۔ چیف صاحب! نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے اس بیان پر غور نہیں فرمایا کہ وہ عطیات جمع کرتے کرتے تھک چکے ہیں اور اب وہ عطیات جمع کرنے کے لیے کوئی اپیل نہیں کریں گے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ عمران خان نے ایسا دل آزار بیان کیوں دیا؟ اور اس کا پس منظر کیا ہے؟ ہمارے سیاست کار اور نام نہاد دانش ور بڑے تسلسل کے ساتھ یہ بیان دیتے رہتے ہیں کہ ستر برس سے کرپشن ہورہی ہے۔ گویا وہ شعوری یالا شعوری طور پر قائد اعظم اور شہید ملت کو بھی کرپشن کی گندگی میں گھسیٹنا چاہتے ہیں حالاں کہ کرپشن کی گرم بازاری بے نظیر بھٹو کے دور حکومت کا تحفہ ہے۔ ہمارا قومی المیہ یہی ہے کہ ہم نے اندھوں کو مشعل بردار بنارکھا ہے
مشعل جس کے ہاتھ میں تھی
وہ تو خود اندھا تھا