طوافِ کوئے ملامت

277

متین فکری

غالبؔ نے برسوں پہلے کہا تھا
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا ضم کدہ ویراں کیسے ہوئے!
لیکن وہ شاعر تھے کسی نے ان کی اس حرکت پر اُنگلی نہیں اُٹھائی کہ شاعر بالعموم اسی قماش کے ہوتے ہیں اور اپنے محبوب کے ایک اشارہ ابرو پر پندار کے ضم کدے کو نذر آتش کر بیٹھتے ہیں۔ البتہ یہاں ذکر ہمارے ہیرو عمران خان کا ہے جو تمام تر دھاندلی اور احتجاج کے باوجود معرکہ انتخاب 2018ء کے فاتح قرار پائے ہیں اور پوری دنیا سے انہیں مبارکباد کے پیغامات موصول ہورہے ہیں لیکن خود ان کا حال یہ ہے کہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے لیے نمبروں کی گیم میں سرگرداں ہیں اور ان کے معاون خاص تاحیات نااہل سیاستدان محترم جہانگیر ترین حمایتیوں کی تلاش میں جگہ جگہ اپنا طیارہ اُڑائے پھر رہے ہیں اور جہاں کوئی شکار نظر آتا ہے اسے بھر کر بنی گالا میں خان کے حضور پیش کردیتے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی اس تگ و دو سے خان کے پندار کے ضم کدے پر کیا بیت رہی ہے اور طواف کوئے ملامت نے اسے کیا سے کیا بنادیا ہے۔ 4اگست کے اخبارات نے ایم کیو ایم کے کوئے ملامت کی باقاعدہ لیڈ چھاپی ہے اور پوری قوم کو بتایا ہے کہ عمران خان جس ایم کیو ایم کے پیچھے لٹھ لیے پھرتے تھے اور جس کے بانی کے تعاقب میں وہ لندن بھی جا پہنچے تھے اور جسے بھارتی ایجنٹ، دہشت گرد اور بھتا خور قرار دیتے ہوئے انہوں نے بڑی جرأت سے کراچی میں للکارا تھا، بُرا ہو اقتدار کا کہ اسے حاصل کرنے کے لیے اسی ایم کیو ایم کی دہلیز پر سجدہ ریز ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ وہ تو کہیے کہ کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیو ایم کا سحر ٹوٹ چکا ہے لوگ اس کے خوف سے آزاد ہوگئے ہیں ورنہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب کراچی اور حیدر آباد کی تمام قومی و صوبائی سیٹوں پر ایم کیو ایم کا قبضہ تھا، لوگ گھروں سے بعد میں نکلتے تھے ان کا ووٹ پہلے پول ہوجاتا تھا۔ اب عمران خان کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ ایک ایسے زمانے میں وزیراعظم بننے جارہے ہیں جب ایم کیو ایم کی سکھا شاہی کا دور لد چکا ہے اور وہ کراچی و حیدر آباد میں سر توڑ کوشش کے بعد قومی اسمبلی کی صرف چھ نشستیں حاصل کرسکی ہے اور اس کا اعصابی مرکز نائن زیرو بھی ویران پڑا ہے، ورنہ جہانگیر ترین کے بجائے خود عمران خان کو کئی بار نائن زیرو کے چکر لگانے پڑتے۔ بانی ایم کیو ایم ویڈیو لنک پر ان سے ناک رگڑواتے، ان سے معافی منگواتے، وفاق میں نقد آور وزارتیں مانگتے، پھر ان کی جھولی میں اپنے ارکان اسمبلی کی خیرات ڈال دیتے۔ اب عمران خان اس رسوائی سے بچ گئے ہیں لیکن چھ رکنی ننھی ایم کیو ایم نے اب بھی انہیں اپنا طنطنہ دکھایا ہے اور 9 نکاتی معاہدہ کرکے انہیں تھوکا ہوا چاٹنے پر مجبور کردیا ہے۔ وہ اس معاہدے کے عوض وفاق میں وزارتیں بھی لے گی اور آنکھیں بھی دکھائے گی، پی ٹی آئی سندھ کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کہتے ہیں کہ اب پہلے والی ایم کیو ایم نہیں رہی اس کا ڈنک نکل گیا ہے اور اب یہ بالکل بدل گئی ہے۔ چہ خوب! ہیں تو یہ لوگ اپنے بانی ہی کے چیلے چانٹے۔ اب بھی اپنی نجی محفلوں میں وہ اس کا بڑی محبت سے ذکر کرتے ہیں اور ایم کیو ایم کی ساری مقبولیت کا کریڈٹ اسے دیتے ہیں۔ ان لوگوں ہی نے سانحہ بلدیہ ٹاؤن پر عدالت کا فیصلہ نہیں آنے دیا اور متاثرین ابھی تک انصاف کو ترس رہے ہیں۔
دراصل پارلیمانی جمہوریت کا یہ کرشمہ ہے کہ اس میں جو بھی چور اُچکا، ڈاکو، بھتا خور اور دہشت گرد عوام سے زبردستی ووٹ لے کر اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے وہ قانون کی نظر میں محترم و معزز ٹھیرتا ہے اور حکومتیں اس سے تعاون مانگنے لگتی ہیں اسی لیے اقبال نے کہا تھا۔
جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اسی ’’جمہوری اصول‘‘ کے تحت مسلم لیگ (ن) کی حکومت ایم کیو ایم کی ناز برداری کرتی رہی، اس نے تو ایم کیو ایم کو اُن نوجوانوں کی جانوں کا معاوضہ بھی ادا کیا جو دہشت گردی کے الزام میں فوج کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی ایم کیو ایم کے ناز اٹھانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، حد یہ کہ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو ایم کیو ایم اس کی بھی لاڈلی بن گئی اور وہ ایم کیو ایم کے ذریعے اپنے مخالفین کو مرواتا اور مکے دکھاتا رہا۔ اب عمران خان آئے ہیں تو انہیں بھی اسی کوئے ملامت کا طواف کرنا پڑتا ہے۔ یہاں ہم آپ کو ایک راز کی بات بتاتے ہیں کہ اگر عمران خان دور اندیشی سے کام لیتے اور پی ٹی آئی کے امیدوار سے مولانا فضل الرحمن اور محترم سراج الحق کو نہ ہرواتے تو انہیں ایم کیو ایم کے آگے رسوا نہ ہونا پڑتا اور حضرت مولانا کی قیادت میں ایم ایم اے انہیں اپنا خوشدلانہ تعاون پیش کردیتی کہ ریاست مدینہ کی طرز پر ملک کا نظام چلانے میں کوئی کافر ہی عدم تعاون کرسکتا ہے۔ حضرت مولانا ایک عملیت پسند سیاستدان ہیں، سیاست کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں، عمران خان نے کرپٹ سیاسی جماعتوں کے خلاف جہاد کا اعلان کر رکھا ہے، یہی موقف محترم سراج الحق کا بھی ہے جب کہ ایم ایم اے کے کسی رکن پر بھی کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ اس طرح پی ٹی آئی اور ایم ایم اے کی خوب نبھتی۔ لیکن افسوس خان نے حضرت مولانا کو اکھاڑے سے نکال کر خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارلی، اب اسے ایک ایک ووٹ کے لیے جھولی پھیلانی پڑ رہی ہے اور ہر کوچہ اس کے لیے کوئے ملامت کا درجہ رکھتا ہے لیکن خیر۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔