مفتی منیب الرحمن
29جولائی2018ء کو جامع مسجد گھمکول شریف برمنگھم میں جماعتِ اہلسنت برطانیہ کے زیرِ اہتمام ’’بائیسویں سالانہ انٹرنیشنل سنی کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی۔ برمنگھم برطانیہ میں پاکستانی نژاد آبادی کا دوسرا بڑا شہر ہے اور وہاں پاکستانی نژاد لوگوں کی آبادی ڈیڑھ لاکھ بتائی جاتی ہے، جو اُس شہر کی مجموعی آبادی کا تقریباً ساڑھے تیرہ فی صد ہے۔ حال ہی میں ایک ڈچ پارلیمنٹیرین گِیَرٹ وِلڈرز (Geert Wilders) نے ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں العیاذ باللہ! رسالت مآب ؐ کی اہانت پر مبنی کارٹونوں کا مقابلہ منعقد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سب سے بڑے گستاخِ رسول کو پانچ ہزار یورو انعام دے گا۔ اسی سبب اس کانفرنس کا عنوان ’’تحفظِ ناموسِ رسالت‘‘ رکھا گیا۔ اہلِ پاکستان گزشتہ تین ماہ سے انتخابی گہما گہمی میں مصروف تھے، اس لیے اس سے بے خبر رہے اور بحیثیتِ مجموعی میڈیا نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی۔ گیرٹ وِلڈرز کو اُس کی مسلم دشمن ذہنیت کے سبب ’’ڈچ ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یورپ کی صورتِ حال یہ ہے کہ جرمنی، فرانس اور ہالینڈ وغیرہ میں نسل پرست جماعتیں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ چکی ہیں، اگرچہ انہیں ابھی مکمل اقتدار نہیں ملا، لیکن وہ اس قطار میں نمایاں طور پر شامل نظر آتے ہیں۔ یورپ میں صرف برطانیہ ایسا ملک ہے کہ ابھی تک کوئی انتہا پسند نسل پرست اس کی پارلیمنٹ میں نہیں پہنچ سکا، بلکہ انتہائی دائیں بازو کے دوانتہا پسند نسل پرست اسلام دشمن سیاست دانوں جیڈا فرانسین اور پال گولڈنگ کو چھتیس ہفتوں کے لیے جیل بھی بھیج دیا گیا ہے، لیکن بحیثیت مجموعی اب یورپ اس لہر کی زَد میں ہے۔ اس پس منظر میں لندن اور گلاسکو میں ٹرمپ کے خلاف بڑے مظاہرے حوصلہ افزا ہیں کہ برطانیہ کے معاشرے میں کسی حد تک اعتدال پسندی موجود ہے، کیوں کہ مظاہرین نے جو ’’پلے کارڈز‘‘ اٹھا رکھے تھے، اُن پر فاشزم، نسل پرستی اور انتہاپسندی کے خلاف نعرے درج تھے۔
چناں چہ گیرٹ وِلڈرز کے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منعقد کرنے کے اعلان نے یورپ کے مسلمانوں کو ایک بار پھر مضطرب کردیا، انگریزی میں گستاخی اور تمسخر پر مبنی خاکوں کو کارٹون اور Caricature بھی کہتے ہیں۔ سو مذکورہ کانفرنس برطانیہ کے مسلمانوں کے جذبات کے اظہار کے لیے تھی تاکہ وہاں کے پارلیمنٹیرین اس معاملے کی سنگینی کا ادراک کریں اور برطانوی پارلیمنٹ میں ممکنہ طور پر رونما ہونے والے اس طرح کے واقعات کا سدِّباب کریں۔
میں اس کانفرنس میں بطور مہمانِ خصوصی کلیدی خطاب کے لیے مدعو تھا، میں نے اپنے خطاب میں کہا: ’’اس وقت امن عالمی ضرورت ہے، قرآنِ کریم نے امن کو بڑی اہمیت دی ہے، بیت اللہ کے مِن جملہ اوصاف میں سے ایک اُس کا ’’دارُالامن‘‘ ہونا ہے، سورۂ قریش میں قریشِ مکہ پر کعبۃ اللہ کا مُتَوَلّی ہونے کے سبب اللہ تعالیٰ نے جن احسانات کا ذکر فرمایا ہے، وہ امن اور رزق کی فراوانی ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بھی اہلِ مکہ کے لیے فراخیِ رزق اور امن کی دعا کی تھی۔ لیکن اس وقت امنِ عالَم خطرے میں ہے، مغرب نے بزعمِ خویش دہشت گردی کے فتنے کے سدِّباب کے لیے سب سے مؤثر حربہ طاقت کو سمجھا ہے، چناں چہ افغانستان، عراق، شام اور لیبیا پر یلغار کردی، لیکن امن کا گوہرِ مقصود اُن کے ہاتھ نہ آیا۔ پس معلوم ہوا کہ طاقت کسی حد تک قیامِ امن کے لیے کارگر ہوسکتی ہے، لیکن یہ مکمل اور دیرپا امن کی کلید ہرگز نہیں ہے، اس کا بیّن ثبوت یہ ہے کہ جہاں جہاں جدید ترین اسلحے اور فنی مہارت سے آراستہ مغربی افواج گئیں، وہ خطے آج بھی امن کے لیے ترس رہے ہیں، جبکہ مسلمانانِ عالَم اس موعودہ امن کی قیمت ملکوں اور شہروں کی تباہی وبربادی کے علاوہ دسیوں لاکھ انسانی جانوں کی شکل میں دے چکے ہیں اور یہ سلسلہ 1979سے جاری ہے، پھر نائن الیون کے بعد تو ظلم کی کوئی انتہا نہیں رہی۔ مغرب کی حکمتِ عملی کی مثال یہ ہے کہ جھاڑ جھنکار کے جنگل کو اوپر سے کاٹ دیا جائے، اس سے وقتی طور پر تو منظر صاف نظر آتا ہے، لیکن پھر پہلے سے زیادہ گھنی جھاڑیاں اُگ آتی ہیں، یہی امریکا اور اہلِ مغرب کی حکمتِ عملی کی ناکامی کا سبب ہے۔ جب تک کسی شر کو جڑ سے نہ اکھیڑا جائے، اس کے دوبارہ اُگ آنے کے اسباب کا ازالہ نہ کیا جائے، شر کسی نہ کسی صورت میں نمودار ہوکر اپنی حشر سامانی دکھاتا رہے گا۔ لہٰذا ہم اہلِ مغرب کو عالمی امن کے قیام کے لیے مل جل کر کام کرنے کی دعوت دیتے ہیں، کیوں کہ مذہب، رنگ ونسل اور علاقائیت سے بالا تر رہتے ہوئے امنِ عالَم کے لیے عالمی برادری کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے، جہاں پوری انسانیت کو مل کر امن کے قیام کی کوششوں کی تائید کرنی چاہیے، وہاں اس کے اسباب کا کھوج لگاکراُن کی بیخ کَنی اور ازالہ بھی ضروری ہے تاکہ یہ بیماری دوبارہ انسانی معاشرے میں نفوذ نہ کرپائے۔ دہشت گردی کے خطرات نے پوری دنیا کو کسی نہ کسی درجے میں اپنے محاصرے میں لے رکھا ہے، پس ماندہ اور ترقی پزیر ممالک کو تو چھوڑیے! امریکا اور مغرب میں بھی داخلی سلامتی پر بے پناہ اخراجات ہورہے ہیں، اسی سبب ان ممالک میں بتدریج سماجی کفالت کا دائرہ سمٹ رہا ہے، امریکا میں زیریں طبقات کے لیے ’’اوباما ہیلتھ کیئر‘‘ کو محدود کردیا گیا ہے اور برطانیہ میں بے روزگار لوگوں کے لیے ویلفیئر پیکج اور اعانتی مدّات میں کمی کی جارہی ہے، اگر داخلی امن پر خرچ ہونے والے تمام اخراجات ختم ہوجائیں تو سوشل ویلفیئر کے لیے مزید رقوم فراہم ہوسکتی ہیں۔ نیز یہ کہ عالمی سطح پر دہشت گردی کو انسانیت دشمنی قرار دیا جائے اور اُسے کسی مذہب، رنگت ونسل، علاقے یا ملک سے نہ جوڑا جائے۔ امریکا اور مغرب میں اس حوالے سے دہرے معیارات ہیں، اگر کوئی سفید فام دہشت گردی کا ارتکاب کرے تو وہ فرد کا جرم قرار پاتا ہے اور خدانخواستہ اگر کوئی مسلمان اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اُسے فوراً مذہب اور اُس کے آبائی وطن سے جوڑ دیا جاتا ہے، یہ روش ختم ہونی چاہیے‘‘۔
میں نے کہا: ’’آپ جب Blasphemy کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، تو یہ لوگ الرجک ہوجاتے ہیں، لیکن ان کے ہاں نفرت انگیزی (Hatred) بہرحال جرم ہے اور اسی جرم میں برطانیہ کے دو انتہا پسند سیاست دانوں کو جیل میں ڈالا گیا ہے، تو آپ انہیں یہ باور کرائیں کہ اہانتِ رسول کے اقدامات نفرت انگیزی کا سبب بن رہے ہیں اور معاشرے کو منافرت کی لعنت سے بچانے کے لیے ایسے اقدامات کا سدِّباب ناگزیر ہے۔ اسی طرح نسل پرستی اور فاشزم مغرب میں بھی مذموم ہیں، اسی لیے برطانیہ میں مظاہرہ کرنے والوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو Racist اور Fascist کہا گیا، سو وہ اقدار اور اصطلاحات جو اُن کے ہاں مسلّم ہیں، ہمیں انہی کو اپنے دینی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہیے، حکمت وتدبر کا تقاضا یہی ہے، کیوں کہ امتِ مسلمہ اور ستاون مسلم ممالک سرِ دست اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ عالمی سطح پر اہانتِ رسول کے خلاف اقوامِ متحدہ یا حقوقِ انسانی کے اداروں میں قانون سازی کراسکیں، اس کی خواہش رکھنا تو اچھی بات ہے اور باعثِ اجر ہے، لیکن تلخ صداقت یہ ہے کہ سرِ دست اس منزل کا حصول امتِ مسلمہ کے لیے آسان نہیں ہے تاوقتیکہ وہ طاقت کی پوزیشن میں آجائے یا مسلم ممالک یک جان اور یک زبان ہوکر ڈپلومیسی اور عالمی تجارت کے مؤثر سببِ انسداد (Deterrent) کو استعمال کرنے کے قابل ہوجائیں‘‘۔
ان بنیادی نکات کو کانفرنس کے اعلامیے میں بھی شامل کرکے قرار دیا ہے کہ برطانیہ میں ثقہ علماء اور مسلم دانشور ایک فورم تشکیل دیں جو برٹش پارلیمنٹیرین اور یورپین پارلیمنٹ کے ارکان سے اُن کی علمی اور فکری سطح پر مکالمہ کرکے انہیں قائل کرسکیں۔ نیز اس امر کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ جسمانی اذیت رسانی اور دہشت گردی کی طرح، خواہ کوئی فرد اس کا ارتکاب کرے یا گروہ یا ریاست، ذہنی اور اعتقادی اذیت رسانی کو بھی دہشت گردی قرار دیا جائے تاکہ قانون کے ذریعے وقتاً فوقتاً برپا ہونے والی ان مہمات کا سدِّباب کیا جاسکے۔ اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ یمن، شام اور افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا کیا جائے اور اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام مسلم ممالک کی امن افواج وہاں متعین کی جائیں تاکہ لوگوں کے دلوں سے خوف کی کیفیت دور ہو اور وہ بے خوف وخطر ہوکر اپنے گھروں کو واپس آسکیں۔ اُن کے تباہ شدہ شہروں، مکانات، شہری خدمات کے بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے لیے عالمی سطح پر فنڈ قائم کیا جائے، جس میں ایک مُعتد بہ حصہ مشرقِ وُسطیٰ کے متموّل ممالک ادا کریں اور گھرانوں کو اُن کی کم از کم فوری ضروریات کے لیے راشن اور نقد امداد کا انتظام کیا جائے۔ سعودی عرب اور ایران کو ایک میز پر بٹھایا جائے تاکہ حلقۂ اثر بڑھانے کے حوالے سے شبہات کا ازالہ ہو اور یہ ممالک اپنی حدود میں رہتے ہوئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات قائم کریں۔