ٹریفک کی روانی اور پولیس

224

کراچی کے ڈی آئی جی ٹریفک نے عوام سے اپیل کی ہے کہ چوراہوں پر کھڑے بھکاریوں کو بھیک نہ دیں اس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے۔ ٹریفک پولیس کے ترجمان کے مطابق گداگر ٹریفک کی روانی میں خلل ڈالنے کے ساتھ ساتھ حادثات کا بھی سبب بنتے ہیں۔ ڈی آئی جی ٹریفک کا فرمان بجا ہے لیکن کراچی کے شہری اچھی طرح جانتے ہیں کہ شہر کے چوراہوں پر بھکاریوں کو ٹھیکا دیا جاتا ہے۔ کئی کئی گروپ شہر میں باقاعدہ بھکاریوں کو ٹھیکے پر چوک خرید کر دیتے ہیں۔ اخبارات میں سروے شائع ہوچکے ہیں کہ کون سا چوک کتنے میں فروخت ہوتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ بات بھی ان خبروں میں آچکی ہے کہ بیشتر چوک پولیس افسران ہی فروخت کرتے ہیں اور اس کام میں ٹریفک پولیس بھی ملوث ہوتی ہے اس کو باقاعدہ حصہ جاتا ہے۔ ڈی آئی جی کے ترجمان نے اس حوالے سے اعلان کیا ہے کہ شہری بھکاریوں کو بھیک دینے سے گریز کریں، بصورت دیگر 9 اگست سے بھکاریوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔ یہ عجیب منطق ہے کہ شہری بھیک دینا بند نہ کریں تو بھکاریوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔ عرب ممالک میں تو کسی بھی چوک پر بھکاری نظر آتا ہے تو پولیس پکڑ کر لے جاتی ہے۔ ٹریفک کی روانی خراب کرنے میں صرف یہ بھکاری شریک نہیں ہیں۔ شہر بھر میں گاڑیوں کے شورومز نے مصیبت کھڑی کر رکھی ہے۔ ان کے بارے میں بھی یہی شکایت ہے کہ یہ باقاعدگی سے ٹریفک پولیس اور علاقہ پولیس کو بھتا دیتے ہیں۔ سابق اور ممکنہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ تین مرتبہ نوٹس لے کر ہدایات دے کر بھی صرف ایک سڑک خالد بن ولید روڈ پر ٹریفک کی روانی بحال نہیں کراسکے۔ کیوں کہ رکاوٹ یہی ٹریفک پولیس ہے۔ چوک میں کارشورومز کے خلاف کارروائی کے لیے کارلفٹر کرین وغیرہ حرکت میں آتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کے اہلکار کار شورومز والوں کو مطلع کردیتے ہیں اور وہ گاڑیاں ہٹالیتے ہیں۔ نمائشی طور پر دوچار گاڑیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ اس طرح شاہراہ قائدین، نیو ایم اے جناح روڈ وغیرہ پر بھی کار شورومز والوں نے فٹ پاتھ اور سڑک گاڑیوں سے بھر رکھی ہے۔ غنڈہ گردی الگ کرتے ہیں، اہم سڑکوں میں طارق روڈ پر تجاوزات کی بھر مار ہے، ایم اے جناح روڈ المعروف بندر روڈ مزار قائد سے آگے جاتے ہوئے انڈر پاس کی وجہ سے تنگ ہے اور پلازہ کے بعد سے تجاوزات کی وجہ سے اور ہر جگہ تجاوزات ٹریفک پولیس کی سرپرستی میں قائم ہیں۔ کراچی کے ٹریفک کو تباہ کرنے والی ویگنیں، رکشے، چنگچی اور بسیں بھی اہم ہیں اور ان کے سرپرستوں میں بھی اکثر پولیس کا نام آتا ہے۔ تو کیا ڈی آئی جی ٹریفک اپنے ادارے سے کارروائی شروع کریں گے؟