رنج و غم کے اآداب

261

مولانا یوسف اصلاحی
گزشتہ سے پیوستہ
(2) مومن کی بھلائی کا راز یہ ہے کہ وہ دنیا میں خدا کا بندہ اور غلام بن کر رہے ۔ اور جب بھی خدا کی طرف سے پکار آئے تو وہ ایک وفا دار اور اطاعت شعار غلام کی طرح اپنی ساری دلچسپیوں سے منہ موڑ کر اور سارے دنیوی مفادات کو ٹھکرا کر خدا کی پکار پر دوڑ پڑے ۔ اور اپنے عمل سے یہ اعلان کرے کہ تباہی اور ناکامی یہ نہیں کہ آدمی دین کے تقاضوں پر دنیوی مفاد کو قربان کر دے ۔ بلکہ ناکامی اور تباہی یہ ہے کہ آدمی دنیا بنانے کی دھن میں دین کو تباہ کر ڈالے ۔
3۔ دنیا کے بارے میں یہ نقطۂ نظر صحیح نہیں ہے کہ آدمی اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لے اور ایسا دیندار بن جائے کہ دنیا کے لیے بالکل ہی ناکارہ ثابت ہو بلکہ قرآن ہدایت دیتا ہے کہ نماز سے فارغ ہوتے ہی خدا کی زمین میں پھیل جائو ۔ اور خدا نے اپنی زمین میں رزق رسانی کے جو ذرائع اور وسائل بھی فراہم کر رکھے ہیں ، ان سے پورا پورا فائدہ اٹھائو اور اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح کھپا کراپنے حصے کی روزی تلاش کرو ۔ اس لیے کہ مومن کے لیے نہ یہ صحیح ہے کہ وہ اپنی ضرورتوں کے لیے دوسروں کا محتاج رہے اورنہ یہ صحیح ہے کہ وہ اپنے متعلقین کی ضرورتیں پوری کرنے میں کوتاہی کرے اور وہ پریشانی اور مایوسی کا شکار ہوں ۔
4۔ آخری اہم ہدایت یہ ہے کہ مومن دنیا کے دھندوں اور کاموں میں اس طرح نہ پھنس جائے کہ وہ اپنے خدا سے غافل ہو جائے اسے ہر حال میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی زندگی کا اصل سرمایہ ارر حقیقی جوہر خدا کا ذکر ہے ۔ حضرت سعید ابن جبیر ؒ فرماتے ہیں ۔ ’’ خدا کا ذکر صرف یہی نہیں ہے کہ زبان سے تسبیح و تحمید ، اور تکبیر و تہلیل کے بول ادا کیے جائیں بلکہ ہر وہ شخص ذکر الٰہی میں مصروف ہے جو خدا کی اطاعت کے تحت اپنی زندگی کا نظام تعمیر کرنے میں لگا ہوا ہے ۔ ‘‘
5۔ جمعہ کی نماز کے لیے جلد سے جلد مسجد میں پہنچنے کی کوشش کیجیے اور اول وقت جا کر پہلی صف میں جگہ حاصل کرنے کا اہتمام کیجئے ۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ نبی ؐ نے فرمایا۔
’’ جو شخص جمعہ کے روز نہایت اہتمام کے ساتھ اس طرح نہایا جیسے پاکی حاصل کرنے کے لیے غسل کرتے ہیں ( یعنی اہتمام کے ساتھ پورے جسم پر پانی پہنچا کر خوب اچھی طرح بدن کو صاف کیا ) پھر اول وقت مسجد میں جا پہنچا گویا کہ اس نے ایک اونٹ کی قربای کی ۔ اور جو اس کے بعد دوسری ساعت میں پہنچا تو اس نے گویا گائے ( یابھینس) کی قربانی کی ۔ اور جو اس کے بعد تیسری ساعت میں پہنچا تو گویا اس نے سینگ والا مینڈھا قربان کیا ۔ اور جو اس کے بعد چوتھی ساعت میں پہنچا توگویا اس نے خدا کی راہ میں ایک انڈا دیا ۔ پھر جب خطیب خطبہ پڑھنے کے لیے نکل آیا تو فرشتے مسجد کا دروازہ چھوڑکر خطبہ سننے اور نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آبیٹھتے ہیں ۔
‘‘(بخاری، مسلم)
اور حضرت عرباض ابن ساریہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ نبی ؐ پہلی صف والوں کے لیے تین بار استغفار فرماتے تھے اور دوسری صف والوں کے لیے ایک بار ۔‘‘( ابن ماجہ، نسائی)
اور حضرت ابو ہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ لوگوں کو پہلی صف کااجر و ثواب معلوم نہیں ہے ۔اگر پہلی صف کا اجر و ثواب معلوم ہو جائے تو لوگ پہلی صف کے لیے قرعہ اندازی کرنے لگیں ، (بخاری، مسلم)
6۔ جمعہ کی نماز جامعہ مسجد میں پڑھیے اور جہاں جگہ مل جائے وہیں بیٹھ جایے۔ لوگوں کے سروں اور کندھوں پر سے پھاند پھاند کر جانے کی کوشش نہ کیجیے۔ اس سے لوگوں جو جسمانی تکلیف بھی ہوتی ہے اور قلبی کوفت بھی اور ان کے سکون ،یکسوئی اور توجہ میں بھی خلل پڑتا ہے ۔
حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ بیان فرماتے ہیں کہ نبی ؐ کا ارشاد ہے ۔
’’جو شخص پہلی صف کو چھوڑ کر دوسری صف میں اس لیے کھڑا ہوا کہ اس کے بھائی مسلمان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے تو خدا تعالیٰ اس کو پہلی صف والوں سے دو گنا اجروثواب عطا فرمائے گا ۔
(طبرانی) (جاری ہے)

حضرت سلمان ؓ فرماتے ہیں کہ نبی ؐ نے ارشاد فرمایا ۔ ’’ جوشخص جمعہ کے دن نہایا دھویا ۔ اور اپنے بس بھر اس نے پاکی اور صفائی کابھی اہتمام کیا۔ پھر تیل لگایا، خوشو لگائی ۔ اور دوپہر ڈھلتے ہی مسجد میں جا پہنچا اور دو آدمیوں کو ایک دوسرے سے نہیں ہٹایا یا( یعنی اس نے ان کے سروں اور کندھوں پر سے پھاندنے ، صفوں کو چیر کر گزرنے یا دو بیٹھے ہوئے نمازیوں کے بیچ میں جا بیٹھنے کی غلطی نہیں کی بلکہ جہاں جگہ ملی وہیں خاموشی سے ) نماز سنت وغیرہ ادا کی جو بھی خدا نے اس کے حصے میں لکھ دی تھی ۔ پھر جب خطیب ممبر پر آیا توخاموش( بیٹھا خطبہ سنتا) رہا تو ایسے شخص کے وہ سارے گناہ بخش دیے گئے جو ایک جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک اس سے سر زد ہوئے۔ ‘‘(بخاری)
7۔خطبہ نماز کے مقابلے میں ہمیشہ مختصر پڑھیے ۔ اس لیے کہ خطبہ اصلاً تذکیر ہے جس میں آپ لوگوں کو خدا کی بندگی اور عبادت پر ابھارتے ہیں اور نماز نہ صرف عبادت ہے بلکہ سب سے افضل عبادت ہے ، اس لیے یہ کسی طرح صحیح نہیں کہ خطبہ تو لمبا چوڑا دیا جائے اور نماز جلدی جلدی مختصر پڑھ لی جائے ۔ نبی ؐ کا ارشاد ہے ۔
’’ نماز کو طول دینا اور خطبے کو مختصر کرنا اس بات کی علامت ہے کہ خطیب سوجھ بوجھ والا ہے پس تم نماز لمبی پڑھو اور خطبہ مختصر کر دو ‘‘۔(مسلم)
8۔ خطبہ نہایت خاموشی ، توجہ ، یکسوئی ، آمادگی اور جذبۂ قبولیت کے ساتھ سنیے اور خدا اور رسول کے جو احکام معلوم ہوں ان پر سچے دل سے عمل کرنے کا ارادہ کیجیے نبی ؐ کا ارشاد ہے ۔
’’ جس شخص نے غسل کیا پھر نماز جمعہ پڑھنے آیا اور آ کر اپنے مقدر کی نماز پڑھی پھر خاموش( بیٹھ کر نہایت توجہ اور یکسوئی کے ساتھ خطبہ سنتا رہا ۔ یہاں تک کہ خطیب خطبے سے فارغ ہوا پھر اس نے امام کے ساتھ فرض نماز ادا کی تو اس کے وہ سارے گناہ بخش دیے گئے جو اس سے ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک سر زد ہوئے بلکہ تین دن کے مزید گناہ بھی بخش دیے گئے۔(مسلم)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب خطیب خطبہ دینے کے لیے نکل آئے تو پھر نہ کوئی نماز پڑھنا درست ہے اور نہ بات کرنا درست ہے ‘‘۔
9۔ دوسرا خطبہ عربی میں ہی پڑھیے البتہ پہلے خطبے میں مقتدیوں کو کچھ خدا رسول کے احکام ، ضرورت کے مطابق کچھ نصیحت و ہدایت اور تذکیر کا اہتمام اپنی زبان میں بھی کیجیے ۔ نبی ؐ نے جمعہ میں جو خطبے دیے ہیں ۔ ان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ خطیب حالات کے مطابق مسلمانوں کو کچھ نصیحت و ہدایت دے ۔ اور یہ مقصد اسی وقت پورا ہو سکتا ہے جب خطیب سامعین کی زبان میں ان سے خطاب کرے ۔
10۔ جمعہ کے فرضوں میں سورۂ الاعلیٰ اور الغاشیہ پڑھنا یا سورۂ منافقون اور سورۂ جمعہ پڑھنا افضل اور مسنون ہے ۔ نبی ؐ اکثر یہی سورتیں جمعہ میں پڑھا کرتے تھے ۔
11۔ جمعہ کے دن کثرت سے نبی ؐ پر درود و سلام بھیجنے کا خصوصی اہتمام کیجیے ۔ نبی ؐ کا ارشاد ہے ۔
’’ جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو ۔ اس روز درود میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ درود میرے حضور میں پیش کیے جاتے ہیں۔ ( ابن ماجہ)