کراچی پولیس میں تبادلے

156

حکومت نے اچانک کراچی پولیس کے سربراہ سمیت کئی پولیس افسران کے تبادلے کردیے ہیں۔ بظاہر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ پولیس افسران نے ایف آئی اے کی جانب سے منی لانڈرنگ کیس کے گواہوں کونوٹسوں کی تعمیل کے دوران ہراساں کرنے کی کوشش کی تھی۔ پہلے گلستان جوہر تھانے کے انچارج خالد عباسی اور ہیڈ محررر کو ہٹایا گیا پھر ایس ایس پی نعمان صدیقی بھی عہدے سے محروم ہوگئے۔ ابھی ملک میں انتخابی عمل بھی مکمل نہیں ہوا نئی حکومت بننے جارہی ہے۔ مختلف شہروں میں جگہ جگہ احتجاج اور مظاہرے ہورہے ہیں ایسے میں کراچی جیسے اہم شہر کے پولیس سربراہ کو اچانک ہٹایا جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ان پر پولیس کی جانب سے ہراساں کیے جانے کا الزام ہے۔ حالانکہ معاملہ یہ ہے کہ منی لانڈرنگ کیس میں دو گواہوں کو نوٹس کی تعمیل کرائی گئی ایک گلستان جوہر کی نورین ہیں جب کہ دوسرے گزری کے گواہ حسن شاہ ہیں۔ ممکن ہے پولیس کو دیکھ کر گواہ خود ہی ہراساں ہوگئے ہوں لیکن اطلاعات کے مطابق اس نوٹس کی تعمیل کرانے کے بعد آئی جی سندھ سخت دباؤ میں آئے پہلے جوہر کے تھانے انچارج پھر گزری کے تھانے انچارج کو ہٹایا گیا جس پر ایس ایس پی جنوبی عمر شاہد نے بھی چارج چھوڑدیا۔ بات تو سمجھ میں آگئی کہ کراچی پولیس چیف کے بجائے آئی جی صاحب کا معاملہ مشتبہ ہے۔ منی لانڈرنگ کرنے والوں کی پہنچ بہت اوپر تک ہوتی ہے۔ حوالے کے لیے صرف آیان علی کیس کافی ہے۔ ویسے پولیس کا بھی معاملہ عجیب ہے وہ جہاں جاتی ہے لوگ ہراساں ہی ہوئے ہیں۔ اس پہلو پر تو قومی سطح پر سوچنے کی ضرورت ہے۔