مقدمات تو نیب کے خلاف بننے چاہییں

275

قومی احتساب بیورو (نیب) نے عدالت عظمیٰ میں اپنے بیان میں بتایاہے کہ سابق صدر سید آصف علی زرداری کے خلاف سوئس مقدمات نہیں کھل سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے مقررہ وقت کے اندر اپیل دائر نہیں کی تھی جس پر سوئس حکومت نے درخواست زاید المیعاد قرار دے کر رد کردی تھی۔ جس کے بعد ستمبر 2012ء میں نیب نے تحقیقات بند کردی تھی۔ اس سارے بیان میں زبردست انکشاف یہ ہے کہ نیب نے آصف زرداری کے خلاف زیر التوا مقدمے کی تفصیلات بھی تلف کردی تھیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عدالتی حکم پر عمل کریں گے۔ نیب کے کارناموں کو اگر ایک ہی سماعت کے اعتبار سے شمار کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کا جواب نہیں۔ عدالت میں نیب کے وکیل نے بتایاکہ این آر او سے ملکی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا کوئی تخمینہ موجود نہیں ہے۔ اب بتایاگیا کہ یہ تخمینہ لگارہے ہیں۔ اس حوالے سے تفصیلات جمع کی جارہی ہیں۔ عدالت عظمیٰ جو حکم دے گی اس پر عمل کریں گے۔ نیب نے یہ بھی بتایا کہ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام ثابت نہیں ہوسکا۔ اسی حوالے سے ایک اور دلچسپ خبر یہ ہے کہ عدالت نے نندی پور مقدمہ کھولنے کا حکم دے دیا ہے۔ اسے کیا کہیے کہ نیب نے جو رپورٹیں دی ہیں ان میں تو وہ خود کٹہرے میں کھڑا ہے۔ ملک قیوم کے بارے میں نیب کو کوئی ثبوت نہیں ملا جس کی ٹیلی فونک ریکارڈنگ ساری دنیا نے ٹی وی چینلوں اور فیس بک وغیرہ پر سن لی کہ فلاں کے خلاف فلاں فیصلہ دیا جائے یہ گفتگو وہ ججوں کو ہدایات دیتے وقت کرتے تھے۔ لیکن نیب نے اسے ثبوت تصور نہ کیا۔ ممکن ہے نیب ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کو ثبوت نہ مانتا ہو۔ لیکن 17 برس تک آصف زرداری کے خلاف فوٹو کاپی پر مقدمات کو سینے سے لگائے بیٹھا رہا۔ یہ کیسا ادارہ ہے کہ اس کے پاس این آر او سے ہونے والے مالی نقصان کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ یہ این آر او سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے 2007 میں جاری کیا تھا جس کے تحت 8 ہزار سنگین مقدمات ختم کیے گئے تھے۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو بھی اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل تھیں اور سابق گورنر سندھ بھی۔ کم از کم 8 ہزار مقدمات کا نقصان ہی ایسا ہے کہ ان کا تخمینہ لگایا جائے تو وہ بھی کافی ہوگا۔ یعنی صرف مقدمات کا اندراج تفتیشی افسران کا تقرر، کاغذی قسم کی کارروائی اور لیپا پوتی وغیرہ پر بھی کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہوں گے۔ اور اگر اب تک نیب نے اس کا تخمینہ نہیں لگایا ہے تو اس کا احتساب ہونا چاہیے کہ ایسا کیوں نہیں کیا گیا۔ صرف ایک گورنر کے سبب کراچی و حیدر آباد میں اور سندھ حکومت میں لوٹ مار کا جو بازار گرم ہوا، قتل و غارت کی جو سرپرستی گورنر ہاؤس سے کی جاتی رہی، اس کا تخمینہ لگانا کس کی ذمے داری تھی۔ جو جو لوگ این آر او کے مقدمات سے فائدہ اٹھاکر پاکستان آئے یا جیلوں سے رہا ہوئے ان کے ہر عمل کو این آر او کے نقصانات کے تخمینے میں شامل کیا جانا چاہیے تھا۔ اگر نیب نے ایسا نہیں کیا تو سب سے پہلے اس کے خلاف مقدمہ بننا چاہیے کہ 11 برس گزرنے کے باوجود نیب این آراو کے نقصانات کا تخمینہ نہیں لگاسکا۔ اگر این آر او کے نقصانات کے پھیلاؤ کو مد نظر رکھا جائے تو آصف زرداری کا صدر بننا بھی اسی کا شاخسانہ تھا۔اور ان کے کارنامے بھی اس کھاتے میں شمار ہوں گے۔ ایم کیو ایم کو نئی زندگی بھی اسی سے ملی، اس کے بہت سے دہشت گردوں کے مقدمات ختم ہوئے۔ آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ 8 ہزار مقدمات کس کس کے خلاف تھے اور کیا تھے۔ قوم کیوں بے خبر ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نیب جیسا ادارہ طاقتور کے اشاروں پر ناچتا ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ایک اور دلچسپ انکشاف یہ کہ چونکہ آصف زرداری کے خلاف سوئس حکومت نے درخواست مسترد کردی تھی اس لیے پاکستان میں نیب نے نہ صرف انکوائری2012ء میں روک دی بلکہ مقدمہ کی تفصیلات بھی تلف کردی گئیں۔ کمال ہے ڈاکٹر بابر اعوان کے دور کے نندی پور پروجیکٹ کو چلتے ہوئے 5 برس گزرچکے اسے کھول دیا گیا۔ آصف زرداری کے خلاف فوٹو کاپی پر ریفرنس 17 برس سنبھال کر رکھا اور آصف زرداری کے خلاف کیس کی تفصیلات تلف کردی گئیں۔ ذرا تاریخوں کو ملاحظہ فرمائیں تو پتا چلے گا کہ حکومت نے سوئس کیس دوبارہ کھولنے کی درخواست مقررہ وقت کے اندر کیوں نہیں دی تھی۔ 2007ء میں این آر او آیا،2008ء میں آصف زرداری صدر بنے، کہنے کو پارلیمانی نظام تھا لیکن جنرل پرویز مشرف سے زیادہ طاقتور صدر اگر کوئی تھا تو آصف زرداری صاحب ہی تھے۔ پھر نیب کی کیا مجال کہ ان کے خلاف کیسز کو جاری رکھتا، چنانچہ انکوائری ستمبر 2012ء میں بند کردی گئی۔ یاد رہے کہ آصف زرداری صاحب 2013ء تک صدر رہے۔ مزید سنیے نیب پھر بھی اسے آصف زرداری کے خلاف زیر التوا مقدمہ قرار دے رہا ہے۔ جب انکوائری بند کرچکے اور مقدمے کی تفصیل تلف کرچکے تو زیر التوا مقدمہ کیا معنی۔ جب آصف زرداری صاحب ملک کے طاقتور ترین صدر تھے اس دور حکومت میں تو یہ ممکن نہیں تھا کہ ان کی حکومت یا اس کا کوئی وزیر یا اہلکار سوئس حکومت کو خط لکھ کر مقدمات دوبارہ کھولنے کی درخواست کرتا۔ اس اعتبار سے تو نیب کو ایک مقدمہ آصف زرداری صاحب پر بنانا چاہیے تھا کہ انہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو سوئس حکام کے نام خط لکھنے سے روک دیا تھاا اور نیب کے خلاف مقدمہ اس لیے کہ اس نے 6 سال سے اس غیر قانونی عمل کو چھپائے رکھا۔ مزید یہ کہ اگر حکومت نے سوئس حکام کو خط نہیں لکھا اور سوئس حکومت نے مقدمہ ری اوپن نہیں کیا تو کیا اس سے جرم کا الزام ہی ساقط ہوگیا۔ نیب کو تو اپنی تحقیق کرکے رپورٹ دینی چاہیے تھی کہ سوئس اکاؤنٹس کے معاملے میں اس کا کیا فیصلہ ہے۔ کم از کم نیب کو اپنی تحقیقات مکمل کرکے نتیجہ قوم کے سامنے رکھنا چاہیے۔ بہر حال چیف جسٹس کا یہ سوال بجا ہے کہ نواز شریف کے خلاف پرانے مقدمات کھل سکتے ہیں تو آصف زرداری کے خلاف مقدمات کیوں نہیں کھل سکتے۔