یمن میں 43بچوں کی شہادت

300

مسلم ملک یمن پر سعودی اتحادی افواج کے حملے جاری ہیں اور ان حملوں میں مسلمان ہی مررہے ہیں۔ گزشتہ جمعرات کو سعودی اتحادی افواج کی قیادت میں فضائی حملے میں اسکول وین زد میں آگئی جس میں 43افراد شہید ہوگئے۔ ان میں اکثریت 10سال سے کم عمر بچوں کی ہے ۔ بظاہر تو شمالی مغربی صوبے صعدہ میں حوثیوں کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا جو ایک مصروف بازار میں تھا تاہم وہاں سے گزرنے والی اسکول وین بھی زد میں آگئی۔ انسانی حقوق کے نگران اداروں کا دعویٰ ہے کہ عرب اتحاد کی جانب سے بازاروں، اسکولوں، اسپتالوں اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ باغی شمار کیے جانے والے حوثیوں کی شرارتیں اپنی جگہ لیکن یمنی بچوں اور عام شہریوں کا کیا قصور ہے۔ کیا یہ ہلاک کیے جانے والے بچے مسلمان نہیں تھے اور کیا ان کو خاک میں ملانے والے بھی مسلمان نہیں ہیں ؟ سعودی اتحادی افواج کی قیادت تو سعودی عرب ہی کررہا ہے جو نہ صرف مسلمان ہے بلکہ عالم اسلام میں نہایت اہم مقام رکھتا ہے۔ یمن کے حوثی سعودی عرب سے برسر پیکار ہیں اور اس پر میزائل حملے کرتے رہتے ہیں۔ لیکن کیا عام یمنی شہریوں اور معصوم بچوں کا قتل مسئلہ کا کوئی حل ہے ؟ کیا دونوں طرف سے کوئی بھی یہ سمجھنے پر تیار نہیں کہ مسلم ممالک کو آپس میں لڑانا اور دونوں کو نقصان سے دو چار کرنامسلمانوں کے دشمنوں کی سازش ہے۔ ستم یہ ہے کہ مسلم ممالک کی کوئی ایسی تنظیم نہیں جو باہم اختلافات کو خونریزی تک پہنچنے سے روک سکے۔ ایک نام نہاد تنظیم او آئی سی تو بنی ہوئی ہے لیکن وہ بالکل ناکارہ ہے اور اس کی کوئی سنتا بھی نہیں ۔ عرب ملک عراق اور عجمی ایران میں 8برس تک جنگ جاری رہی اور کسی نے بیچ بچاؤ نہیں کرایا۔ چنانچہ دونوں مسلم ممالک تباہی سے دوچار ہوئے اور اسلحہ ساز ممالک کا اسلحہ فروخت ہوتا رہا۔ پھر عراق کا ہوا دکھا کر سعودی عرب سے مال بٹورا جاتا رہا۔ آخر کار عراق کو تباہ کردیا گیا۔ رہی سہی کسر امریکی حملے نے پوری کردی جس میں سعودی عرب نے بھرپور ساتھ دیا بلکہ ان حملوں کا خرچ بھی برداشت کیا۔ تمام عرب ممالک میں عراق ہی سائنس و ٹیکنالوجی اور معاشی استحکام میں سب سے آگے تھا اور امریکی پروردہ اسرائیل اس سے خوف زدہ تھا۔ اب عراق عملاً تین حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے اور وہاں امریکی پٹھوؤں کی حکومت ہے۔ لیبیا اور دیگر خوشحال عرب ممالک بھی تباہ کردیے گئے ہیں۔ اس کے باوجود مسلمان حکمرانوں کو عقل نہیں آئی ۔ سعودی اتحادی فوج میں صرف سعودی عرب ہی تو نہیں۔ یہ بھی سوچنے والی بات ہے کہ حوثی باغیوں کو اسلحہ اور میزائل کون فراہم کررہا ہے۔ اس جنگ میں یمن اور سعودی عرب دونوں کا نقصان ہے اور اسلام دشمنوں کا یہی مقصد ہے۔ دوسری طرف اسرائیل مقبوضہ فلسطین میں جو کچھ کررہا ہے اس پر کسی کی نظر ہی نہیں ۔ گزشتہ جمعرات ہی کو غزہ کی پٹی میں محصور فلسطینیوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے 3افراد شہید اور 12زخمی ہوگئے۔ جنگی طیاروں کی بمباری سے 23سالہ حاملہ خاتون اور ایک سالہ بچی اپنی جان سے گئیں۔ یہ فلسطینی خاتون اور بچی تو یہودیوں کے ہاتھ مارے گئے اس لیے شہید کہلائے لیکن یمن کے 43بچے تو مسلمانوں کے حملے میں مارے گئے۔ اگر یہ شہید ہیں تو انہیں مارنے والوں کو کیا کہا جائے۔ اسرائیل نے نمازیوں کے لیے مسجد ابراہیمی بند کردی اور ہر جمعہ کو مسجد اقصیٰ میں داخلہ بند کردیا جاتا ہے۔ کیوں نہیں عرب اتحادی افواج ادھر کا رخ کرتیں۔ کیا اس لیے کہ یہ امریکا کو گوارہ نہیں ۔ یہ بات سمجھنا کیا بہت مشکل ہے کہ ایک ایک کر کے تمام مسلم ممالک زد میں آئیں گے۔