آر ٹی ایس عدالت عظمیٰ میں

576

انتخابات میں دھاندلی کا معاملہ تو شاید آئندہ 5سال تک چلتا رہے، جب تک نئے انتخابات نہ آجائیں۔ اس عرصے میں عمران خان حکومت بنا ہی لیں گے۔ فارم 45 میں گھپلے بھی سامنے آگئے ہیں۔ جب نتائج تیار ہوگئے تھے تو ان کے اعلان میں تاخیر کیوں ہوئی ؟ فارم پر تمام امیدواروں کا نام بھی نہیں ہے۔ ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب شاید نہ مل سکے۔ ابھی تو یہ معما بھی حل نہیں ہوا کہ نتائج منتقل کرنے کا نظام آر ٹی ایس اچانک کیسے بند ہوگیا۔ کیا دن کے ساڑھے گیارہ بجے تک موصول ہونے والے نتائج توقع کے مطابق نہیں تھے۔ یہ معاملہ اب عدالت عظمیٰ تک پہنچ گیا ہے۔ گزشتہ جمعرات کو معزز عدالت نے الیکشن کمیشن کو حکم دیاکہ اس نظام میں جو خرابیاں ہیں ان کودور کیا جائے اورنظام میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو اس کا متبادل تیار رکھا جائے۔ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی قیادت میں عدالت عظمیٰ کے تین ججوں پر مشتمل بینچ نے یہ حکم بھی دیا کہ جو نشستیں خالی ہوئی ہیں ان پر بائی الیکشن کے لیے خصوصی طور پر تیار کردہ سافٹ ویر استعمال کیا جائے اور 70لاکھ90ہزار سمندر پار پاکستانیوں کو بھی الیکشن میں شرکت کا موقع فراہم کیا جائے۔ یعنی اس سسٹم کا تجربہ سمندر پار پاکستانیوں کی شمولیت کے لیے کیا جائے۔ جہاں تک سمندر پار پاکستانیوں کو پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں ووٹ کا حق دینے کا معاملہ ہے تو اس کا مطالبہ گزشتہ 25سال سے کیا جارہا ہے۔ ہر حکومت نے یہ حق دینے کا وعدہ کیا تھا کہ ایک بار پھر اقتدار ملنے پرسمندر پا ر پاکستانیوں کو بھول گئی۔ بے نظیر کے دور حکومت میں جب مسلم لیگ ن حزب اختلاف میں تھی تو اس نے سمندر پار پاکستانیوں سے وعدہ کیاتھا کہ ایک بار پھر اقتدار میں آگئی تو انہیں ووٹ ڈالنے کا حق ضرور دیاجائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ پھر 2013ء میں تیسری بار ن لیگ اقتدار میں آئی اور میاں نواز شریف وزیر اعظم بنے لیکن ان 5 برس میں ایک بار بھی اس سمت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ پتا نہیں کیوں پاکستان کی سیاسی جماعتیں سمندر پار پاکستانیوں سے خوف زدہ ہیں جو قیمتی زر مبادلہ بھی فراہم کرتے ہیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری پر بھی آمادہ رہتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے حالات کے بارے میں پاکستان سے باہر رہنے والے زیادہ باخبر اور فکر مند رہتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کا وطن کن حالات سے گزر رہا ہے پھر بھی ان کو انتخابی عمل میں شریک نہیں ہونے دیا جاتا۔ عجیب بات ہے کہ قیدیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے لیکن سمندر پار پاکستانیوں کو نہیں۔ حالاں کہ اس کا آسان سا طریقہ ہے کہ ہر پاکستانی اپنے اپنے سفارتخانوں، قونصل خانوں میں جا کر اپنے ووٹ کا اندراج کردے۔ وہاں گھپلا ہونے کا امکان بھی کم ہوتا ہے اور اگر یہ نہیں تو ان کے ووٹ ڈا ک کے ذریعے منگوا لیں۔ آخر لاکھوں پاکستانیوں کو ان کے حق سے محروم رکھنے میں کیا حکمت ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کے علاوہ پاکستان میں رہنے والے وہ رائے دہندگان بھی محروم رہ جاتے ہیں جو کسی وجہ سے اپنے حلقے سے دور ہوں۔ ان کا تبادلہ ہوگیا ہو یا کسی مجبوری کی وجہ سے دوسرے شہر جانا پڑ جائے وہ ووٹ ڈالنے سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ حالاں کہ ان کو یہ اجازت ہونی چاہیے کہ وہ کہیں بھی اپنا شناختی کارڈ دکھا کر ووٹ ڈال دیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام کام کررہا ہے کہ آپ کہیں بھی ہوں ایک بٹن دبا کر ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ اس کے لیے پولنگ اسٹیشن پر جانے اور لمبی لمبی قطاریں لگانے کی ضرورت نہیں ۔ شاید یہ نظام کبھی پاکستان میں بھی آجائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم، آر ٹی ایس متعارف کرایا گیا وہ بھی نہ چل سکا یا چلنے نہیں دیا گیا۔ یہ نظام نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی المعروف نادرا نے تیار کیا ہے اور الیکشن کمیشن کو 18کروڑ روپے میں دیا ہے۔ یہ 18کروڑ روپے عوام کی جیب ہی سے نکالے گئے ہوں گے، چیف الیکشن کمشنر نے اپنی جیب سے نہیں دیے ہوں گے۔ یہ نظام ناکارہ نکلا، وجوہات کچھ بھی ہوں ، 18کروڑ کا خسارہ کون پورا کرے گا ؟ کیا نادرا؟ نادرا تو وہ محکمہ ہے جو کئی برس گزرنے کے باوجود آج تک بسہولت شناختی کارڈ جاری کرنے کے قابل نہیں ہوا لیکن پیسے خرچ کر کے کوئی بھی شناختی کارڈ بنوالیتا ہے خواہ وہ پاکستانی شہری بھی نہ ہو۔ عدالت عظمیٰ کے استفسار پر الیکشن کمیشن کے سیکرٹری بابر یعقوب نے توجیہہ پیش کی کہ آر ٹی ایس نتائج کی منتقلی کے دوران میں ’’ کریش‘‘ نہیں ہوا بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ کچھ سست ہوگیا تھا اور ساڑھے گیارہ بجے تک خوب کام کرتا رہا۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بتایا کہ 82ہزار افراد کو تربیت دی گئی تھی کہ آر ٹی ایس کیسے چلانا ہے، گویا 18کروڑ روپے دینے کے علاوہ 82ہزار افراد کو بھی یہ نظام چلانے کی تربیت دی گئی جو چل کر نہیں دیا لیکن انہیں بھی معاوضہ تودیا گیا ہوگا۔ حساب لگایا جائے کہ یہ ناکارہ نظام کتنے میں پڑا۔