کامیابی کا سہرا اور دھاندلی کی چادر

410

چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس میاں ثاقب نثار کا پیمانہ صبر بھی لبریز ہوگیا ہے۔ انہوں نے بالآخر یہ کہہ دیا کہ انتخابات والے دن چیف الیکشن کمشنر سو رہے تھے۔ انہیں انتخابات والے دن تین مرتبہ فون کیا گیا لیکن جواب نہیں آیا۔ پتا نہیں الیکشن کیسے چل رہا ہے۔ اچھا خاصا الیکشن چل رہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے مہربانی کردی اور آر ٹی ایس بیٹھ گیا۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے حوالے سے درست نشاندہی کی ہے۔ معاملہ صرف چیف کمشنر کا نہیں ان کا پورا نظام جواب نہیں دے رہا تھا۔ ووٹر اپنا پولنگ اسٹیشن اور بوتھ معلوم کرنا چاہتے تھے انہیں بھی اس کا جواب نہیں مل رہا تھا، بہت سوں کو جواب پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد ملا۔ ان کے میسج کے پیسے بھی گئے اور ووٹ بھی۔ لیکن پاکستانی قوم جس طرح انتخابی نتائج پر حیران ہے اس بات پر بھی پریشان ہے کہ الیکشن شفاف تھے یا نہیں۔ شفاف تھے تو ان کے شفاف ہونے کا سہرا کس کے سر ہے۔ چیف جسٹس نے بیان دیا کہ شفاف انتخابات کا وعدہ پورا کردیا، بہت سوں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ پھر پاک فوج نے اجلاس منعقد کیا اور خود ہی قوم کا شکریہ ادا کیا کہ عوام نے انتخابات میں بھرپور شرکت کرکے فوج پر اعتماد کا اظہار کیا۔ یہ پتا نہیں چلا کہ کس پولنگ اسٹیشن پر فوج کو ووٹ ڈال کر اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ بہرحال نگراں وزیراعظم اور وزیراطلاعات نے بھی شفاف انتخابات کا سہرا اپنے سر لینے کی کوشش کی، حالاں کہ یہ سہرا پہلے ہی سروں پر ڈالا جاچکا تھا۔ بہرحال نگراں حکومت کی کیا اہمیت اسے تو سہرے سے مطلب ہوتا ہے۔ ویسے بھی سہرا سہرا ہوتا ہے نیا ہو یا پرانا کوئی بھی اپنے سر لے سکتا ہے۔
دوسری پریشانی یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور بڑے جو باتیں کرتے ہیں یا میاں ثاقب نثار کی بہت سی باتیں درست اور سو فی صد درست ہوتی ہیں لیکن بہت تاخیر سے ہوتی ہیں اس کے بعد کچھ کیا نہیں جاسکتا۔ مثال کے طور پر جنرل راحیل اور جنرل پاشا کے بیرون ملک جا کر ملازمتیں کرنے کے ایک دو سال بعد اس پر برہمی کا اظہار کیا گیا یا چیف الیکشن کمشنر 25 جولائی کو سو رہے تھے تو 26 کو انہیں طلب کرلیا جاتا۔ یہ اطلاع قوم کو بہت دیر سے ملی۔ وجہ کوئی بھی ہوسکتی ہے، اسی طرح جنرل پرویز ملک سے چلے گئے پھر چودھری نثار کو پتا چلا کہ جنرل پرویز تو ملک سے جاچکے اور ان کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری موجود ہے، جب وزیر داخلہ کو اس کا علم نہیں تو عدالتوں کو بھی کیسے معلوم ہوگا؟ انہیں بھی دیر میں پتا چلا ہوگا۔ اسی طرح نیب کو اب معلوم ہوا ہے کہ آصف زرداری کے خلاف سوئس مقدمات نہیں کھولے جاسکتے۔ جیسے نیب عدالت کو 17 برس بعد پتا چلا تھا کہ آصف زرداری کے خلاف فوٹو کاپی پر ریفرنس بنایا گیا تھا جو غلط تھا۔ فوٹو کاپی کو ثبوت نہیں کہا جاسکتا۔ بہرحال چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کی نااہلی یا غفلت کا اعلان تو کردیا ہے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اب مقدمات آئیں گے تو پتا نہیں کیا ہوگا۔ اس میں بھی وہی ہوگا جو پاکستان میں ہوتا رہا ہے یعنی بعد میں پتا چلے گا کہ فلاں صاحب جیتے ہوئے ہیں اور ہارنے والے کو جیتا ہوا قرار دیا گیا تھا۔ چلو اب ریکارڈ درست کردیتے ہیں اور ریکارڈ درست ہوجائے گا۔ لیکن جس کو وزیراعظم بنوانا تھا وہ تو بن چکا۔ پھر جو چاہے کریں۔ بعض حلقوں کی رائے یہ ہے کہ انتخابی نتائج کے حوالے سے الزامات کا رخ ایک ہی جانب تھا اس کو موڑنا ضروری تھا اور اس کے لیے الیکشن کمیشن موزوں ترین ہے کیوں کہ شکایات اسی کے توسط سے پیدا ہوئی ہیں اب الیکشن کمیشن میں سارے ہی سرکاری ملازم ہیں اور اس کے ریٹرننگ، پریزائیڈنگ اور پولنگ افسران بھی سرکاری ملازم، لہٰذا اب لمبی چپ۔ سب نے کامیابی کے سہرے اپنے اپنے سروں پر ڈال لی، دھاندلی کی سیاہ چادر الیکشن کمیشن کے سر۔ لیکن امید ہے دنیا بھر کے الیکشن کمیشن پاکستان کے الیکشن کمیشن سے رجوع کریں گے کہ ہمیں بھی ایسے ہی شفاف الیکشن کرانے کا طریقہ بتادو۔ یعنی مستقبل میں پاکستانی چیف الیکشن کمشنر کو بھی بیرون ملک بھاری تنخواہ والی ملازمت مل سکتی ہے۔ بس جب فون آئے تو اٹھالیں۔ کہیں پھر سوتے نہ رہ جائیں۔ پھر جب تک وہ کئی ماہ تنخواہیں لے چکے ہوں گے تو کوئی نوٹس لے گا کہ انہیں کس نے جانے دیا۔
انتخابات میں جن پارٹیوں، لیڈروں کو کامیاب قرار دیا گیا ہے آہستہ آہستہ انہیں بھی یقین آرہا ہے کہ وہ کامیاب ہوگئے ہیں۔ ورنہ تو وہ خود سکتے میں تھے۔ کوئٹہ میں انتخاب والے دن دھماکے کے فوراً بعد ایک امیدوار نے الیکشن کمیشن کو فون کیا کہ یہاں پولنگ رکوادی جائے، الیکشن ملتوی کیا جائے، یہ بات نہ مانی گئی تو اس نے پولنگ کا وقت بڑھانے کا مطالبہ کیا، یہ بھی نہیں مانا گیا تو سارا دن مایوسی کے عالم میں رہا لیکن رات کو اپنے صحافی دوستوں سے حیرت انگیز انداز میں کہہ رہا تھا۔ ارے میں تو جیت گیا ہوں، یہ کیفیت بہت سے لوگوں کی ہے، انہیں بھی تاخیر سے پتا چلا کہ وہ جیت گئے ہیں۔ تاخیر پر معذرت۔ الیکشن کمیشن کو تو اب بھی پتا نہیں چلا کہ کرنا کیا ہے۔ ایک ٹی وی ڈراما آتا تھا جس میں ایک بزرگ پاؤں گھسیٹتے ہوئے آتے اور پوچھتے جانا کتھے ای۔۔۔ ان کو پاکستانی قوم کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا تھا کہ اسے 50 سال گزرنے پر بھی نہیں معلوم تھا کہ کدھر جانا ہے۔ اب 71 برس گزر گئے ہیں، دوسرے بزرگ یہی سوال کررہے ہیں جاناں کتھے ای۔