یادیں اور باتیں

467

یہ چند سال قبل کی بات ہے۔ سردیاں تھیں۔ غریب سردی کے ہاتھوں پریشان تھے۔ اُن کے لیے گرم کپڑوں کی خریداری آسان نہیں ہوتی۔ مہنگائی کے ہاتھوں پریشان سفید پوش طبقہ بھی مجبور ہی ہوتا ہے وہ گھر کا چولہا گرم رکھے یا جسم و جان گرم رکھنے کا اہتمام رکھے۔ ایسے میں ایک دن کسی کام سے الماری کھولی تو میری نظر اپنے محبوب شوہر کے لٹکے کوٹ سوٹ کے ہینگرز پر پڑی ہے۔ وہ تو رخصت ہوگئے لیکن ان کی ایک ایک شے میں اُن کی یادیں لپٹی پڑی ہیں۔ میرا تو یہ وتیرہ تھا کہ اُن کی چیزوں کو نظر بھر کر دیکھنا بھی نہیں ہے۔ کون روز روز ان کی یادوں کے سیلاب پر بند باندھے کہ آنکھوں کے دریا کسی بند کو خاطر ہی میں نہیں لاتے۔ پھر گھنٹوں اپنے آپ کو سنبھالنے میں لگ جاتے۔
لیکن اُس دن آدھے درجن لٹکتے کوٹ دیکھنے کے ساتھ ہی مجھے لگا میں نے محض اپنے آپ کو سنبھالنے کے لیے انہیں یوں جمع رکھا ہے۔ یہ کتنے ہی لوگوں کو سردی سے محفوظ رکھیں گے۔ تو ہی میرے پیارے شوہر کے لیے بھی کار آمد ہوں گے۔ بس یہ سوچ کر الماری سے سارے ہینگر نکال لیے۔ جیبوں کا جلدی جلدی جائزہ لے کر قریبی ’’الخدمت‘‘ کے مرکز بھجوادیے۔ اس بات کو ایک ہفتہ گزر گیا۔ ایک دن فون آیا کوئی خاتون الخدمت سے بول رہی تھیں کہنے لگیں آپ نے الخدمت میں سوٹ بھجوائے ہیں۔ جواب دیا ’’جی ہاں‘‘ صرف آپ نے ہی بھجوائے ہیں؟؟
انہوں نے دوبارہ پوچھا
’’جی ہاں میں نے ہی بھجوائے ہیں‘‘
دل ہی دل میں میں حیران تھی۔ آخر کیا بات ہے کیوں اس قدر تصدیق کی جارہی ہے۔میرا مطلب ہے کہ آپ کو وہ کوٹ کسی اور نے تو نہیں دیے ہیں؟؟ الخدمت بھجوانے کے لیے؟؟
انہوں نے تیسری بار پوچھا
جی نہیں میں نے ہی بھیجے ہیں آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟
میں نے سوال کیا۔دراصل بات یہ ہے کہ اُن میں سے ایک کوٹ کی جیب سے ڈالر اور دیگر غیر ملکی کرنسی نکلی ہے۔ اُن کے ساتھ ایک رسید بھی ہے؟؟ وہ کوٹ کس کے تھے؟؟
جی وہ میرے مرحوم شوہر کے تھے۔
آپ مہربانی کرکے ان کا نام بتائیں گی۔ رسید پر نام لکھا ہے۔
انہوں نے نام کی تصدیق کے ساتھ اس کو مجھے واپس بھجوانے کی بات کی۔
میں نے بتایا جی ہاں میرے شوہر آفس کی طرف سے باہر جاتے رہتے تھے میٹنگ اور سیمینارز میں شرکت کرنے کے لیے۔
دوسرے دن مقامی الخدمت کی طرف سے ایک لفافہ موصول ہوگیا جس میں رسید کے ساتھ فارن کرنسی موجود تھی۔
یہ واقعہ سنانے کا مقصد دیانت، امانت اور احتیاط کے اُس معیار کا تذکرہ ہے جس کو الخدمت اپنے فنڈز کے سلسلے میں ملحوظ رکھتی ہے۔ وہ کوٹ کی جیب سے نکلنے والی رقم کو اپنے ہی فنڈ میں ڈال سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے ضروری سمجھا کہ اس معاملے میں تصدیق کرلی جائے۔ امانت اور دیانت کے اس معیار ہی کی بدولت الخدمت جس وسیع پیمانے پر پورے ملک کے طول و عرض میں ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے نیٹ ورک چلا رہی ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ پھر اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی اُمت مسلمہ کے درد اور دُکھ میں شریک رہتی ہے۔
الخدمت جماعت اسلامی کا ایک ایسا بازو ہے جو عوام کی خدمت اور بہتری کے لیے ہر وقت اور ہر گھڑی تیار رہتا ہے۔ جہاں کوئی تعصب ہے نا سفارش، بس خدمت ہی خدمت ہے جس کے لیے ایسے ایمان دار اور مخلص کارکن جن کو جماعت اسلامی تربیت مہیا کرتی ہے۔ اپنے ہم وطنوں کی خدمت کا یہ ایک شعبہ ہے جو اپنے اندر بہت سے شعبوں کو سمیٹے ہوئے ہے ، پھر تعلیم، انصاف، جیلوں میں عورتیں، بچے، بوڑھے۔۔۔ جو جرم بے گناہی کی سزا بھگت رہے ہوتے ہیں اُن کے درد کا درماں اسی جماعت اسلامی کے کارکن بنتے ہیں۔
آج اگر سیاست میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو اپنے اور پرائے کہتے ہیں جماعت ختم ہوگئی۔ سیاست جماعت کے بس کا کام نہیں۔ اُن کو عوام نے مسترد کردیا۔ یہ ساری باتیں بہت سخت اور تلخ بھی ہیں۔ لیکن یہ کچھ اتنی بھی نہیں بلکہ اُن کا عشر عشیر بھی نہیں جو اللہ کے نبیوں کو پیش آئیں۔ ساڑھے نو سو سال سیدنا نوحؑ اپنی قوم کو بلاتے رہے، حق کی دعوت دیتے رہے۔ لیکن قبول کرنے والے مختصر تعداد میں رہے یہاں تک کہ گھر کے اندر مسترد کیے گئے۔ لہٰذا انبیا کے مشن کو لے کر اُٹھنے والوں کے لیے مسترد کیے جانے کا دُکھ۔۔۔ دُکھ نہیں۔۔۔ دُکھ اور افسوس اگر ہے تو یہ کہ آپ دنیاوی نتائج پر ایک دوسرے کو لعن طعن کرنا شروع کردیں، ٹھیک ہے کہ تجزیہ ہونا چاہیے، غور و فکر کرکے معاملات کو درست سمت میں ڈالنے کے لیے تجاویزات دینی چاہئیں۔ لیکن بہرحال فیصلہ اپنے ذمے داروں پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو دوسری پارٹیوں کے کارکن اور جماعت اسلامی کے ورکرز میں کیا فرق رہے گا؟ سیاست میں ساتھ دینا بھی ہوتا ہے اور ساتھ چھوڑنا بھی ہوتا ہے۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے کوئی سیاسی لا ئمہ عمل بنانا ہی ہوتا ہے۔
آج اعتراض ہوتا ہے کہ آپ اس کو اور اُس کو ووٹ دیں گے۔ جی ہاں آپ کو اپنا وزن اپنے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے کہیں نہ کہیں تو ڈالنا ہوتا ہے۔ سیرت پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ کبھی رسول اللہؐ نے مشرکین کی طرف جھکتا ہوا معاہدہ کیا (صلح حدیبیہ) اور کبھی یہودیوں سے مدینے کی حفاظت پر میثاق مدینہ کیا۔ جماعت اسلامی جب 26 اگست 1941ء میں تشکیل پائی تو صرف 75 کی تعداد رکھتی تھی۔ اُس کے بعد سے اُس کا سفر کبھی رُکا نہیں تھما نہیں۔ ہر میدان میں آگے بڑھا ہے، جی ہاں سیاست کے میدان میں بھی۔۔۔ آپ کی سچائی حق گوئی امانت اور دیانت کو آپ کے مخالفین بھی مانتے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ پارلیمنٹ میں امانت اور دیانت کو دیکھنا اپنے لیے مناسب نہیں سمجھتے آپ کو اپنے لیے رکاوٹ جانتے ہیں تو یہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کی تشکیل سے چند گھنٹے قبل مولانا نے جو خطاب کیا تھا اُس میں کھلم کھلا کہا تھا کہ ’’یہ بات ہر اُس شخص کو سمجھ لینا چاہیے جو جماعت اسلامی میں آئے کہ جو کام اس جماعت کے پیش نظر ہے وہ کوئی ہلکا اور آسان کام نہیں ہے اُسے پورے نظام زندگی کو بدلنا ہے، اُسے دُنیا کے اخلاق، سیاست، تمدن، معیشت، معاشرت ہر چیز کو بدل ڈالنا ہے۔ دنیا میں جو نظام حیات خدا سے بغاوت پر قائم ہے اُسے بدل کر خدا کی اطاعت پر قائم کرنا ہے اور اس کام میں تمام شیطانی طاقتوں سے اُس کی جنگ ہے اُس کو اگر کوئی ہلکا کام سمجھ کر آئے گا تو بہت جلد مشکلات کے پہاڑ اپنے سامنے دیکھ کر اس کی ہمت ٹوٹ جائے گی۔ لہٰذا نہ پیچھے ہٹنا ہے نہ ہمت توڑنا ہے۔ جس ناکامی کو آپ ناکامی سمجھ رہے ہیں وہ ناکامی نہیں۔ ناکامی تو وہ ہو گی کہ آپ کی صفوں میں کمزوری پیدا ہو دراڑ آئے اور اُس کی وجہ خدانخواستہ جانے ان جانے میں آپ بنیں۔